اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستانی شہر کلکتہ کی معروف جادوپور یونیورسٹی (JU) کے کنووکیشن کے دوران بدھ کے روز ایک پوسٹر جس پر لکھا تھا “جے یو میں اسلاموفوبیا کی کوئی جگہ نہیں” اسٹیج (ڈائس) پر نمایاں طور پر آویزاں کیا گیا۔ یہ احتجاج یونیورسٹی میں مبینہ اسلاموفوبیا اور مسلم طالبات کے ساتھ حجاب کے حوالے سے امتیازی سلوک کے خلاف کیا گیا۔
یہ احتجاج انگریزی شعبے کے فرسٹ ایئر پوسٹ گریجویٹ طلبہ نے کیا، جو اپنے انڈرگریجویٹ ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے کنووکیشن میں شریک تھے۔ احتجاج کا تعلق اسی ہفتے پیر کو انگریزی شعبے میں جاری ایک امتحان کے دوران پیش آنے والے ایک مبینہ واقعے سے جوڑا جا رہا ہے۔
طلبہ کے مطابق، پروفیسر سسوتی ہلدر نے دو تھرڈ ایئر انڈرگریجویٹ طالبات پر نقل کا الزام لگا کر امتحان کے آخری گھنٹے میں ان سے حجاب اتارنے کو کہا۔ بتایا گیا کہ اس جانچ پڑتال کی وجہ سے طالبات کی امتحانی کارکردگی بھی متاثر ہوئی کیونکہ آخری وقت کا بڑا حصہ اسی عمل میں صرف ہو گیا۔
میڈیا ادارے مکٹوب کی جانب سے پروفیسر ہلدر سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں، تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس کے بعد طلبہ نے وائس چانسلر کو باضابطہ شکایتی خط ارسال کیا۔
وائس چانسلر چرنجیب بھٹاچاریہ کو دیے گئے خط میں طلبہ نے الزام لگایا کہ ایک طالبہ کو سب کے سامنے حجاب کھولنے کے لیے کہا گیا۔ جب دوسری طالبہ نے اس پر اعتراض کیا تو مبینہ طور پر اسے الگ کمرے میں لے جا کر نجی طور پر حجاب اتارنے کو کہا گیا۔ خط میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ایک اور طالبہ سے بھی، جو کسی دوسرے کمرے میں امتحان دے رہی تھی، حجاب اتارنے کو کہا گیا۔
ایک طالبہ کے مطابق، اس نے محض حجاب کا ایک چھوٹا سا حصہ ہٹا کر دکھایا تاکہ ثابت کر سکے کہ وہ کانوں میں کوئی آلہ (ایئر فون) استعمال نہیں کر رہی تھی، جیسا کہ شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔
شکایتی خط میں کہا گیا:
“یہ رویہ ہمارے نزدیک مذہبی بنیادوں پر امتیاز کے مترادف ہے۔ یہ رواداری اور مساوات کے اُن اصولوں کے خلاف ہے جنہیں ایک یونیورسٹی کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اس سے اقلیتی طلبہ کے لیے امتحانی نظام پر اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس معاملے کی سنجیدگی سے جانچ اور تحقیقات کی جائیں۔”
طلبہ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ آئندہ کسی بھی طالب علم کو اس طرح کی ہراسانی یا نشانہ بنائے جانے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور امتحانی نگرانی میں مذہبی و ثقافتی حساسیت کا خیال رکھا جائے۔
جادوپور یونیورسٹی کے طالب علم، جہیت خان (شعبہ بین الاقوامی تعلقات) نے کہا کہ طالبات کو کلاس میں سب کے سامنے، بشمول مرد طلبہ، حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کے مطابق، احتجاج کرنے والے ایک طالب علم کو نظر انداز کیا گیا اور بعد میں طالبات کو الگ کمرے میں لے جا کر مبینہ طور پر تضحیک آمیز سوالات کیے گئے، جن میں حجاب پہننے کی وجہ اور ذاتی زندگی سے متعلق سوالات شامل تھے۔
دوسری جانب، وائس چانسلر نے شکایت موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، “ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
تاہم، انگریزی شعبے کے اساتذہ نے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ ان کے مطابق حالیہ دنوں میں امتحانات میں ہیڈ فون کے ذریعے نقل کے کئی واقعات سامنے آئے تھے، اسی لیے جانچ پڑتال کی گئی اور اس کا تعلق کسی مخصوص مذہبی طبقے سے نہیں تھا۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ مختلف پس منظر کے طلبہ کی جانچ کی گئی جبکہ بعض حجاب پہننے والی طالبات، جن میں ایک معذور طالبہ بھی شامل تھی، کو چیک نہیں کیا گیا۔
ایک سینئر پروفیسر نے کہا کہ اسلاموفوبیا کے الزامات سے اساتذہ شدید ذہنی دباؤ میں ہیں اور اس سے تعلیمی ذمہ داریاں ادا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ فیکلٹی نے واضح کیا کہ کسی بھی استاد کا عمل مذہبی تعصب پر مبنی نہیں تھا۔
یہ واقعہ جادوپور یونیورسٹی کے 68ویں سالانہ کنووکیشن کے دن پیش آیا، جس کی صدارت مغربی بنگال کے گورنر اور ریاستی جامعات کے چانسلر سی وی آنند بوس نے کی۔ اس تقریب میں 4,400 سے زائد طلبہ کو ڈگریاں اور اسناد دی گئیں۔
آپ کا تبصرہ