بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
موجودہ صورتحال میں جب ایران کو امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اپنے جوہری تنصیبات پر مسلح حملوں اور IAEA کی سیاسی چالوں اور اسرائیل کو معلومات کی فراہمی جیسے مسائل کا سامنا ہے، NPT میں رکنیت ایران کے مفادات کے تحفظ کے بجائے بھاری سلامتی، معاشی اور سفارتی نقصانات کا باعث بن رہی ہے۔ 1968ء میں منظور ہونے والا یہ معاہدہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حق کو یقینی بنانے کے لیے منعقد ہؤا تھا، لیکن عملاً یہ ایک غیرمنصفانہ نظام ثابت ہوا ہے۔ جوہری طاقتیں اپنے مفادات کے تحت NPT کے اصولوں کو نظرانداز کرتی ہیں، جبکہ ایران جیسے ممالک کو پرامن جوہری پروگرام پر بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واضح ہوچکا ہے کہ NPT کی رکنیت ایران کے لئے نقصان دہ ہے، کیونکہ اس کو معاہدے کے تحت ملنے والے حقوق نہیں مل رہے ہیں؛ یہ معاہدہ ایران کی سلامتی اور ترقی کے لیے غیر مفید ہے اور آرٹیکل 4 کے تحت پرامن جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی کا حق ہونے کے باوجود ایران کو مسلسل رکاوٹوں کا سامنا ہے، جبکہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک (خاص طور پر اسرائیل) کسی پابندی کے بغیر اپنے پروگرام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں NPT سے علیحدگی ایران کے لیے ایک منطقی اقدام ہے۔
ایران کے لئے این پی ٹی کی رکنیت کے بھاری اخراجات
بین الاقوامی معاہدے اراکین کے حقوق و فرائض پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے NPT میں شمولیت کے بعد سے، خاص کر گذشتہ 23 سالوں میں، معاہدے کے تحت اپنے "فرائض" پورے کرنے کی راہ اختیار کی تاکہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی کے "حق" سے مستفید ہو سکے۔ لیکن اس دوران IAEA کے اقدامات نہ صرف ایران کو اس کے جوہری حقوق دلوانے میں ناکام رہے، بلکہ ملک پر بھاری سفارتی، سلامتی، معاشی اور فوجی اخراجات بھی مسلط کیے۔ ایجنسی گذشتہ برسوں میں یورپ، امریکہ اور صہیونی ریاست کے ہاتھوں میں ایران کے خلاف معلومات جمع کرنے اور کیس بنانے کا ایک ذریعہ بنی رہی ہے۔
ایرانی جوہری ادارے نے IAEA پر بارہا سیاسی بازیگری اور غیر معتبر الزامات عائد کرنے کا الزام لگایا ہے، خاص طور پر اسرائیل کی جانب سے پیش کیے گئے بے بنیاد دعووں کو IAEA کی رپورٹس میں شامل کرنے پر تنقید کی ہے۔ وزارت اطلاعات کے 10 جون 2025ع کے بیان میں بھی IAEA کی رپورٹس میں اسرائیل کے جھوٹے اور بے سند دعوؤں کے شامل ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
آئی اے ای اے نے ایران کے خلاف جعلی کیس بنا کر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا راستہ ہموار کیا، جس کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے ایران کو طویل مذاکرات میں الجھائے رکھا۔ اس عمل نے ایران کے جوہری پروگرام کو متاثر کیا اور ملکی معیشت کو طویل عرصے تک معطل بنائے رکھا۔
حال ہی میں، NPT کی رکنیت اور اس کے تمام تقاضوں کی پابندی کے باوجود، ایران کے جوہری تنصیبات پر امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بے پناہ فوجی حملے کیے گئے ہیں۔ یہ حملے ایک ایسے ملک کے غیر فوجی جوہری تنصیبات پر کیے گئے ہیں جو NPT کا رکن ہے، اور یہ تاریخ میں ایک منفرد واقعہ ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ حملے IAEA کی غیر تکنیکی اور سیاسی رپورٹ پر ایران کی مذمت کے صرف ایک دن بعد شروع ہوئے۔
دوسرے الفاظ میں، IAEA کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کی رپورٹ نے ایران کے جوہری تنصیبات پر فوجی حملے کی ذہنی آمادگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جس کے بعد جرمنی، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک نے ان حملوں کی کھلم کھلا حمایت کی۔
ایران کے لیے NPT میں رکنیت کے نقصانات اب اس کے فوائد سے زیادہ ہو چکے ہیں، جس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
1۔ جوہری رازداری کا تحفظ:
شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل IAEA کے ذریعے ایران کے جوہری اسرار تک رسائی حاصل کرتے رہے ہیں۔ سابق سی آئی اے اہلکار نورمن رول کے مطابق، ایجنسی کی نگرانی جوہری توانائی کے مخالف امریکی منصوبوں کا اہم حصہ ہے۔ اس لیے اس صنعت کو تحفظ دینے کے لیے ایجنسی کے معائنوں کی مکمل بندش ضروری ہے۔
2. غیر محدود جوہری ترقی کی ضرورت:
ایران کو معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے کسی پابندی کے بغیر پرامن جوہری ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ گزشتہ 23 سالوں میں آژانس کی رکاوٹوں کی وجہ سے ملک میں صرف 1,000 میگاواٹ جوہری بجلی ہی پیدا ہو پائی ہے، جبکہ رہبر انقلاب کا ہدف 20,000 میگاواٹ ہے۔
3. ایجنسی کی طرف سے ملک کی طرف سے جعلی کیسز اور بہانوں سے چھٹکارا
NPT سے علیحدہ ہو کر، ایران ایجنسی کے جعلی مقدمات سے آزاد ہو جائے گا۔ مغربی ممالک کے رویے اور جوہری تنصیبات پر حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ NPT اب اپنی افادیت کھو چکا ہے، اور NPT میں ایران کی رکنیت عملی طور پر ملک کے جوہری مفادات کے خلاف کوئی تحفظ اور تسدید (Deterrence) فراہم نہیں کرتی۔
4. NPT سے علیحدگی کا قانونی جواز:
NPT کے آرٹیکل 10 کے تحت، اگر کوئی رکن ملک اپنے بنیادی مفادات کو خطرے میں محسوس کرے تو وہ معاہدے سے نکل سکتا ہے، جس کے لیے صرف 3 ماہ کا نوٹس درکار ہے۔
5.دفاعی ابہام کا فائدہ
اگرچہ ایران ایٹم بم بنانے کا قائل نہیں، لیکن جوہری پروگرام کے بارے میں ابہام دشمنوں کو حملے سے باز رکھنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔
نتیجہ:
اسرائیل اور پھر سلامتی کونسل کے مستقل رکن امریکہ کے حالیہ فوجی حملوں کے بعد NPT سے مکمل علیحدگی اور ایجنسی کی نگرانی ختم کرنا دشمن کے جارحانہ اقدامات کا مضبوط سیاسی جواب ہوگا۔ اس سے کم کوئی بھی اقدام، صرف کمزوری کا اظہار ہوگا، جو مستقبل میں مزید دباؤ اور سائنسدانوں کے قتل کا باعث بنے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ: اسلامی جمہوریہ ایران کی مجلس شورائے اسلامی (پارلیمان) نے آج [مورخہ 25 جون 2025ع] این پی ٹی کے معاہدے کی رکنیت پر زور دیتے ہوئے اس معاہدے کے تحت ائی اے ای اے کے ساتھ تعاون کو ضروری ضمانتوں کی فراہمی تک، معطل کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: کامران شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ