اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ بنا | سنہ 1914ء کے برعکس، یورپ آج حادثاتی طور پر جنگ کی جانب نہیں جارہا ہے۔ وہ پورے ہوش و حواس میں ایسی جنگ کی تیاری کررہا ہے جو اسے پُرکشش لگ رہی ہے جبکہ اس میں یورپ کی توجہ کا محور روس اور یوکرین کی دشمنی ہے جہاں یوکرین نے حال ہی میں اپنے دشمن کی فضائی صلاحتیوں کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے ڈرونز کا طاقتور وار کیا ہے۔
ولادیمیر زیلنسکی نے دعویٰ کیا کہ آپریشن اسپائیڈر ویب میں کم از کم 4 روسی فضائی اڈوں پر 40 سے زائد اسٹریٹجک بمباروں کو تباہ کیا گیا یا نقصان پہنچایا گیا۔ اس حملے کی منصوبہ بندی 18 ماہ سے زائد عرصے میں کی گئی تھی۔ بظاہر لاری ڈرائیورز جن کا خیال تھا کہ وہ لکڑی کے کیبن کی ترسیل کررہے ہیں لیکن درحقیقت وہ چھپے ہوئے ڈرونز کو اپنے اہداف کے قریب لے جارہے تھے۔ روس نے ’دہشتگرد‘ حملے کی تصدیق کی ہے لیکن اس نے ممکنہ نقصانات کی وضاحت نہیں کی ہے (بالکل اسی طرح جس طرح گذشتہ ماہ پاک-بھارت غیر اعلانیہ تصادم میں ہوا تھا)۔
تاہم اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ کیئف کی یہ حکمت عملی فریقین کو پُرامن حل کی جانب لے جائے گی۔ یوکرین نے حملہ ایک ایسے وقت میں کیا کہ جب روس کی جانب سے یوکرین پر سب سے بڑا ڈرون اور میزائل حملہ کیا گیا تھا۔ روس کے اس بڑے حملے میں بھی کم ہلاکتیں ہوئیں جبکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں زیادہ شہادتیں ہوتی ہیں۔
مجموعی طور پر اس یورپی جنگ میں، قابلِ مذمت اور وسیع پیمانے پر یک طرفہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے سے کئی گنا زیادہ جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ دونوں معاملات میں واضح سوال یہی ہونا چاہئے کہ جنگ کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور پُرامن منصفانہ حل کیسے نکالا جاسکتا ہے۔ یورپ کے لئے یہ صدمہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایک ایسے امن معاہدے پر غور کررہی ہے جس سے ولادیمیر پیوٹن کو زیادہ تر وہ زمین مل جائے گی جو روس نے جنگ کے دوران حاصل کی تھی۔
یہ یوکرین کے ساتھ انتہائی ناانصافی ہوگی جوکہ 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اپنی سرحدوں کو برقرار رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن یوکرین پر تنازع، سوویت یونین سے بھی کافی پرانا ہے اور پیوٹن نے اپنے نظریے کی تائید کے لئے تاریخ کے کچھ حصوں کا انتخاب کرلیا ہے اور ایک ایسے بیانیے کو تخلیق کیا ہے جو آج کی 21ویں صدی کی دنیا کے کام کرنے کے طریقے سے بالکل مختلف ہے۔
یہی تنقید ہم ولادیمیر پیوٹن کے حریفوں پر بھی کرسکتے ہیں جو ایک ایسی تنظیم میں شامل ہیں جسے اعتماد نہیں کہ وہ اپنے امریکی سرپرست سے کس طرح کی حمایت حاصل کریں گے۔ اپنے گذشتہ دورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے نیٹو سے نکلنے کی دھمکی دی تھی۔ اس بار انہوں نے یہ انتباہ تو نہیں دہرایا لیکن وہ اتحادیوں کو فوجی تیاریوں پر وسائل خرچ کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان کے بہت سے اتحادی ہتھیاروں پر دولت خرچ کرنے کے لئے تیار بھی ہیں۔
یورپ کے مغربی ساحل پر واقع ایک جزیرہ برطانیہ ’جنگ کی تیاری‘ کے لئے ہتھیاروں پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس کے سیکریٹری دفاع نے کہا ہے کہ "برطانیہ کا مؤقف ماسکو کے ساتھ ساتھ بیجنگ، تہران اور پیانگ یانگ کو بھی ایک مضبوط پیغام بھیجے گا"۔ لیکن شاید ہمیں ایک ایسے ملک سے محتاط رہنا چاہئے جس ملک نے اعلیٰ اقدار کے لئے کھڑے ہونے کا دعویٰ کیا لیکن اس نے خلیجی و دیگر مقامات سے روسی ارب پتی اور مشکوک سرمایہ کاروں سے ملنے والی رقم کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔
بہت سی دیگر یورپی اقوام بھی اسی زمرے میں آتی ہیں یعنی وہ بھی امریکہ کی خوشنودی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ اکثر ایسی کوششوں کو نظرانداز کر دیتا ہے جس میں لگژری جیٹ جیسی چمکدار یا مہنگی چیز شامل نہ ہو۔ ممالک کا ایک چھوٹا گروپ مخالف سمت میں جا رہا ہے، یعنی وہ روس کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہنگری کے رہنما وکٹر اوربان نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر (اگرچہ وہ جھوٹ بولتے ہیں)، لوگوں سے سچ اگلوانے والے ایک ’سچ سیرم‘ کی طرح ہیں۔ سلوواکیہ کے رہنما رابرٹ فیکو بھی اسی طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ اگرچہ اٹلی کی وزیر اعظم، جارجیا میلونی جن کا ماضی انتہائی دائیں بازو کی جماعت سے وابستہ ہے لیکن وہ پیوٹن کی کھلے عام حمایت نہ کرتے ہوئے بھی یورپی رہنماؤں اور ٹرمپ کے ساتھ ساتھ چلنا چاہتی ہیں۔
لیکن پرتگال سے پولینڈ تک، انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں واشنگٹن کی نئی انتظامیہ کی حمایت میں پھل پھول رہی ہیں۔ گذشتہ ماہ پرتگالی چیگا پارٹی اپنی آمریت کا تختہ الٹنے کے 50 سال بعد لزبن میں مرکزی اپوزیشن کے طور پر ابھری ہے جبکہ رواں ہفتے پولینڈ میں کیرول ناوروکی نے ٹرمپ کی ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ تحریک کے پرچار کے بعد وارسا کے میئر رافال ٹرزاسکوسکی کو ان کی کرسی سے برطرف کردیا۔
اس کے علاوہ سنگاپور میں ہونے والے شنگریلا ڈائیلاگ میں ٹرمپ کے سیکریٹری دفاع پیٹ ہیگستھ نے امریکہ کے ایشیا پیسیفک اتحادیوں کو چین کی جانب سے لاحق خطرے کے پیش نظر فوجی اخراجات میں اضافہ نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جس کے کچھ ہی دیر بعد، جرمن دفاعی سربراہ کارسٹن بریور نے اعلان کیا کہ نیٹو کے ارکان کو آئندہ 4 سال میں روس کے حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چند روز قبل جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار جرمن فوجیوں کو مستقل طور پر بیرون ملک تعینات کرنے کے موقع پر لتھوانیا کا دورہ کیا۔
اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ماسکو کو جوپیغام ملتا ہے اس کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔ ایک مکمل جنگ روس اور یورپ دونوں کے لئے خوفناک ثابت ہوگی۔ لیکن اس سوال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کیا پیوٹن کی ضد اور یورپ کی جارحانہ فوجی چالیں اس جنگ کا باعث بن سکتی ہیں جس کا ہر ایک کو خوف ہے؟
یورپ کو ٹرمپ اور ان کے منشیوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے مؤثر سفارت کاری پر توجہ دینی چاہئے تاکہ ایک بڑے عالمی تنازعے سے بچا جا سکے۔ ایسی جنگ جو حقیقتاً جیتی نہیں جا سکتی، اس کے لئے تیار ہونے اور رقم خرچ کرنے کے بجائے یورپ کو اپنے محدود وسائل کو اندرونِ خانہ سماجی و معاشی مسائل حل کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔
ماہر علی، ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ