1 جون 2025 - 14:37
جامع اسلام وحدت و عظمت کی کنجی ہے، سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی

آیت اللہ رمضانی نے نائجر کے مبلغین اور اسلامی علوم سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء سے خطاب کرتے ہوئے وحدت اسلامی، انسانی کرامت اور ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد پر زور دیتے ہوئے "جامع اسلام" کی مختلف جہتوں کی تشریح کی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، نائجر کے مبلغین اور اسلامی علوم سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کا اجلاس اس ملک کی اسلامی انجمنوں کے سربراہ اور نیامی میں تیجانیہ سلسلے کے مرشد کی موجودگی میں منعقد ہؤا۔ سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی، آیت اللہ رضا رمضانی اس اجلاس کے مہمان خصوصی تھے۔

آیت اللہ رمضانی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان حج بیت اللہ جیسے اشتراکات نیز ایران اور نائجر کے باہمی اشتراکات پر زور دیتے ہوئے کہا: ذبح اسماعیل (علیہ السلام) سے سبق لینا چاہئے اور اس کا اہم ترین سبق توحید ہے توحیدِ نظری بھی اور توحیدِ عملی بھی۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) عصر حاضر میں شرک کے خلاف جہاد کے علمبردار تھے اور انھوں نے دنیا میں مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا کی۔

جامع اسلام؛ دین پر امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی گہری نگاہ

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے امام خمینی (رضوان اللہ علیہ)  کو جامع اسلام کا داعی قرار دیا اور کہا: امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی رائے تھی کہ اسلام کو جامع اور گہری نگاہ سے دیکھنا چاہئے، اور اس کو ایک سطحی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ ان کی نظر میں اسلام کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطل، اسلام میں جلال بھی ہے اور جمال بھی ہے اور جامع اسلام ان تمام جہتوں پر مشتمل ہے۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ)  نے ہم سب کو اسلامی امت کی تشکیل کی دعوت دی، انھوں نے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اٹھنے اور قیام کرنے کی دعوت دی۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے پیغام کے مندرجات ہر رنگ اور ہر نسل اور ہر لسانی گروہ کے انسانوں کے وقار و کرامت پر مشتمل ہے جس کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے، اور ان کا پیغام یہ ہے کہ کسی کو بھی ظلم کا نشانہ نہیں بننا چاہئے۔

انھوں نے کہا: قرآن کریم نے انسانی کرامت نیز عدالت پر زور دیا ہے اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ)  اور امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کی دعوت یہ ہے کہ ہمیں کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہئے اور کسی کا ظلم قبول نہیں کرنا چاہئے اور دین ہمیں حکم دیتا ہے کہ اگر دنیا کے کسی گوشے میں مظلوم خواتین اور بچوں پر ظلم ہو رہا ہو تو ہمیں اس ظلم کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہئے اور رد عمل دکھانا چاہئے۔ یورپ اور امریکہ میں بھی اس ظلم کے خلاف رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے تو کیا ہمیں اس ظلم پر رد عمل ظاہر نہیں کرنا چاہئے؟

انھوں نے کہا: ہمیں خدا کے لئے سیکھنا چاہئے اور خدا کے لئے ہی سکھانا چاہئے اور خدا کے لئے عمل کرنا چاہئے اگر جس نے ایسا کیا تو اس کو حدیث کی رو سے عالم ملکوت میں "عظیم" کہا جاتا ہے۔

علم عمل کے بعد، ایک روشنی مبلغین کے دلوں میں

انھوں نے علم کی اقسام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارے پاس دو قسم کے علوم ہیں جن میں سے ایک علم وہ ہے جسے ہمیں ہمیں سیکھنا اور حاصل کرنا چاہئے۔ اور دوسرا علم "عمل کے بعد کا علم" ہے۔ آیت اللہ العظمی بہجت عمل کے بعد کے علم پر تاکید کیا کرتے تھے اور اس حدیث کا حوالہ دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر کوئی اس چیز پر عمل کرے جسے وہ جانتا ہے، خدائے تبارک و تعالی اس کو ان چیزوں کا علم عطا کرتا ہے جو وہ نہیں جانتا۔ یہ علم نور اور روشنی ہے، اور روشنی عطا کرتا ہے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے کلام کی رو سے، علم تعلیم و تعلّم کی کثرت کا نام نہیں بلکہ ایک نور ہے جس سے کہ انسان کا دن روشن اور نورانی ہو جاتا ہے۔

انھوں نے کہا: تبلیغ میں کامیاب کی شرط تین قسم کے آداب ہیں: پہلا ادب "ادب مع النفس" ہے، یعنی ہمیں خود کو ادب سکھانا چاہئے، دوسرا ادب "ادب مع الغیر" ہے، یعنی ہمارا دوسرے کے ساتھ رابطہ دلچسپ اور دلکش ہونا چاہئے، اور تیسرا ادب "ادب مع اللہ" ہے یعنی خدا کے ساتھ رابطہ، اس رابطے میں ہمیں ادب کا لحاظ رکھنا ہوگا، خدائے متعال کو اپنا خالق، مربّی، محبوب اور معشوق سمجھنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا: تبلیغ انبیاء (علیہم السلام) کی خصوصیات میں سے ہے، مبلغ صرف الفاظ کو منتقل نہیں کرتا بلکہ اس کو حقائق سے آشنا ہونا چاہئے تاکہ ان الفاظ اور مفاہیم کو سننے اور دیکھنے والے کے قلب میں منتقل کر سکے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے تبلیغ کے دوران انسانوں کے دلوں کو آگاہ کیا۔ ہر مبلغ کی دو دوسری سمتیں بھی ہیں جن کا تعلق انبیاء (علیہم السلام) سے کہا: اول یہ کہ ہر مبلغ ایک معلم اور استاد ہے اور اور دوسرا یہ کہ ہر مبلغی مربّی ہے۔ چنانچہ ہر مبلغ کا رنگ الٰہی ہونا چاہئے اور اس کو یہ الٰہی رنگ سامعین تک منتقل کرنا چاہئے۔

مغربی شبہات کا جواب، مبلغین کی آج کے دور کی ذمہ داری

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے مبلغین کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا: مبلغین کو چاہئے کہ اپنے سامعین و ناظرین کی صحیح شناخت کریں؛ مبلغ کا کام تدریجی اور قدم بقدم ہے، ضروری ہے کہ وہ تدریجی طور پر تعلیم دیا۔ مبلغ کو اس انداز سے بولنا چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کا سامع و ناظر بھی اس بات کو سمجھ لے۔ مبلغی اسلام کو سطحی انداز سے متعارف نہ کرائے، لہذا اس کا وسیع مطالعہ ہونا چاہئے اور اپنے سامعین کے سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت کا حامل ہونا چاہئے۔

انھوں نے کہا: مغرب آج تسلسل کے ساتھ مختلف قسم کے شبہات پھیلاتا ہے، مثلا مغرب میں کہا جاتا ہے کہ روحانیت تک پہنچنے کے لئے انسان کو دین کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسلام کو صحیح، جامع اور عمیق انداز میں متعارف کرائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اسلام محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا اسلام دہشت گردی اور تشدد کا اسلام نہیں ہے۔ بہت سے مسلمانوں نے فتح مکہ کے دین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے قریش سے بدلہ لینے کے لئے کہا لیکن آپ(ص) نے فرمایا: "آج رحمت کا دن ہے"۔

انھوں نے کہا: اسلام کی رحمت ہی اس کی عالمگیریت کا سبب بنی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ) کے اخلاق و کردار نے اسلامی کو عالمگیر بنایا۔ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) آج کے دور میں ہوتے تو آپ نائجر کے تمام مبلغین ـ جو بلال حبشی کی نسل سے ہیں ـ آپ(ص) کے مبلغین کی پہلی صف میں شامل ہوتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha