7 جون 2025 - 15:01
امام خمینی(رح) نے عالمی قواعد کو بدل ڈالا/ امام راحل نے جدید دور میں کرامت و عدالت کو زندہ کیا، آیت اللہ رمضانی

عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکرٹری جنرل کا بیان: ہم سب امام خمینی(رح) کے مکتب کے شاگرد ہیں۔ دین کے بارے میں امام(رح) کا نقطہ نظر جامع تھا اور وہ اس بات کے قائل تھے کہ دین کو ہمہ گیر طور پر مؤثر ہونا چاہیے۔ امام خمینی(رح) نے مسلمانوں کو عزت و عظمت بخشی اور سیاسی و مذہبی میدانوں میں عالمی قواعد اور [اور مسلط کردہ ضوابط] کو بدل ڈالا۔ ایک زمانے میں مشرقی اور مغربی بلاک اقتدار آپ میں تقسیم کرنے میں مصروف رہتے تھے، لیکن آج سامراجی نظام کے مقابلے پر کھڑی ہونے والی قوت امام خمینی(رح) کی فہم پر مبنی اسلام ہے۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر کی رہائشگاہ میں ـ عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی کی موجودگی میں ـ آئیوری کوسٹ کے شہر ابیجان میں امام خمینی(رح) اور شہدائے خدمت [آیت اللہ شہید رئیسی اور ان کے ساتھیوں] کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔

غدیر، لیاقت اور استحقاق مبنی حکمرانی کے لئے ایک عملی نمونہ

آیت اللہ رمضانی نے تقریب میں غدیر کے پیغامات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: غدیر کا بنیادی درس یہ ہے کہ ذمہ داریاں اہل ترین افراد کو سونپی جائیں۔ جو بھی ماہر اور متقی ہو، اسے مناسب عہدے پر فائز ہونا چاہئے۔ آج یہ تعلیم حقیقتاً ایک عالمی پیغام بن چکی ہے۔ اگر دنیا بھر میں لائق ترین افراد حکمرانی کر رہے ہوتے تو آج کیا صورت حال ہوتی؟

ہمارے سامنے تین قسم کی کربلائیں ہیں: تاریخی کربلا (61 ہجری) جس کے 'اسباب' پر تو بہت گفتگو ہوئی، لیکن 'اس کی کیفیت' پر کم بات ہوئی۔ وہ کربلا اور عاشورا جسے بعض علماء نے متنازعہ بنایا؛ غزالی جیسوں نے فتویٰ دیا کہ کربلا کا ذکر کرنا تک حرام ہے، کیونکہ اس سے یزید کی مذمت لازم آتی ہے، حالانکہ ممکن ہے وہ توبہ کر چکا ہو (اور تائب کی مذمت جائز نہیں)! بعض کہتے ہیں یزید مجتہد تھا جو غلطی پر تھا، جبکہ بعض کے نزدیک عاشورا ایک استثنائی واقعہ ہے جس سے عام تقلید کرنا اور اس سے عملی نمونے لا کر بروئے کار لانا ممکن نہیں ہے!

عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا: تیسرا عاشورا وہ ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آپ لاطینی زبان میں 'عاشورا' تلاش کریں تو پہلے صفحے پر خونریزی اور قمہ زنی کی تصاویر نظر آئیں گی۔ میں جب ویانا میں تھا تو یہ دیکھ کر شدید رنجیدہ خاطر ہؤا کہ ہم نے عاشورا کے مقام کو کس قدر گرا دیا ہے۔ جبکہ امام خمینیؒ فرماتے ہیں: 'اللہ کی قسم! امام حسینؑ پر گریہ ایک سیاسی عمل ہے' - کیونکہ سید الشہداءؑ کا قیام معاشرے کی اصلاح کے لئے تھا، جب بدعتیں زندہ اور رائج ہو چکی تھیں اور سنتیں مٹ رہی تھیں۔

آیت اللہ رمضانی نے امام خمینیؒ کے کارناموں کو سراہتے ہوئے کہا: امام راحلؒ نے حوزہ علمیہ کے مقام کو بلند کیا اور مرجعیت کو نیا مفہوم بخشا۔ فرانس میں ایک تقریر کے بعد غیر ایرانی سامعین نے مجھ سے کہا: 'امام خمینیؒ صرف ایران کے نہیں، بلکہ خدا کی جانب سے سارے عالم کے لئے ایک تحفہ ہیں۔' شہید مطہریؒ کہا کرتے تھے: 'علامہ طباطبائیؒ کو سمجھنے کے لیے سو سال درکار ہوں گے، جبکہ امام خمینیؒ کو سمجھنے کے لئے اس سے بھی زیادہ وقت چاہئے۔' امامؒ نے ہمیں نجات بخشی، ہماری نظروں کو وسعت دی، اور آج ہم سمجھ پاتے ہیں کہ دین، حج، غدیر اور عاشورا کی حقیقی روح کیا ہے۔

امام خمینیؒ نے مرجعیت اور امتِ اسلامی کی عزت کو بحال کر دیا

عالمی اہلِ بیتؑ اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے امام خمینیؒ کے مکتبِ فکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ہم سب اِس مکتب کے شاگرد ہیں؛ اور جن لوگوں نے اِس راستے پر چل کر اِس مکتب سے سبق سیکھا، اُنہیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ عوام کے خادم ہیں؛ اس حوالے سے  جیسے شہید رئیسی اور شہید امیرعبداللہیان کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ شہید امیرعبداللہیان اسلامی جمہوریہ کی سفارتکاری میں ادب کا پیکر تھے۔ اُنہوں نے حقیقی معنوں میں اسلامی سفارتکاری کو ایک نیا معیار بخشا۔ میرا اُن کے ساتھ کام کے ساتھ ساتھ گہرا جذباتی تعلق بھی تھا، اور وہ عالمی اہلِ بیتؑ اسمبلی کو خاص توجہ دیتے تھے۔"

مکتبِ امام خمینیؒ کا عالمگیر پیغام

انھوں نے مزید کہا: امام خمینیؒ دین کے بارے میں جامع رائے رکھتے تھے۔ اُن کی رائے تھی کہ دین کو ہر پہلو سے مؤثر ہونا چاہئے۔ اُنھوں نے مسلمانوں کو وقار بخشا اور سیاسی و مذہبی میدانوں میں عالمی طاقتوں کے توازن کو بدل ڈالا۔ ایک زمانہ وہ تھا جب مشرقی اور مغربی بلاک اقتدار کی آپس میں تقسیم کر دیتے تھے، لیکن آج سامراج کے مقابل صرف ایک قوت کھڑی ہے، اور وہ ہے امام خمینیؒ کی فہم پر مبنی اسلام۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، لوگ اِس فہم کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر معظم نے فرمایا: 'امام خمینیؒ کے نام کے بغیر ایران کا انقلاب دنیا میں کہیں بھی نہیں پہچانا جاتا۔' لہٰذا ہمیں امامؒ کے افکار کو نئے سرے سے سمجھنے اور تشریح کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں امام کے افکار میں تحریف کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔

غدیر: تقدیر سازی کا پیغام

آیت اللہ رمضانی نے امام خمینیؒ کی غدیر کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: امامؒ نے غدیر کو ایک انقلابی انداز میں پیش کیا؛ غدیر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنی تقدیر کو خود سنوارنا چاہئے۔' دیکھئے کہ اُن کی نگاہ کتنی دوررس تھی! غدیر کا مقصد یہ تھا کہ انسان اپنی زندگی اور تقدیر کے تعین میں فعال کردار ادا کرے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے حضرت علیؑ سے تین دن تک بیعت کی، حتیٰ کہ روانہ ہونے والے قافلے واپس آئے تاکہ بیعت کریں۔

عدل اور احسان کی حقیقت

انھوں نے عدل کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: 'قسط' صرف اجتماعی انصاف ہے، جبکہ 'عدل' زیادہ جامع ہے؛ یہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر انصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ نے ہمیں عدل اور احسان دونوں کا حکم دیا ہے۔ البتہ عدل کے نفاذ کے لئے قربانی دینا پڑتی ہے؛ جیسے حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) محراب عبادت میں عدل کی پاسداری کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ بہت سے لوگ عدل کو برداشت نہیں کر پاتے؛ حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے دور میں بھی کچھ لوگ زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کی توقع رکھتے تھے اور جب عدل و انصاف کا موقع آیا تو وہ کمزور پڑ گئے کیونکہ اُنہیں اپنے مفادات عزیز تھے۔

مغرب کی دوغلی پالیسیاں

انھوں نے مغربی معاشروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: امام خمینیؒ چاہتے تھے کہ ہم توحید کو عملی زندگی میں نافذ کریں۔ بغیر کرامت کے توحید کی منزل تک پہنچنا ناممکن ہے۔ آج مغرب بھی کرامت و انسانی وقار کی بات کرتا ہے، لیکن انھوں نے اس قدر یہ نعرے لگائے کہ یہ نعرے  بھی ان کے ظلم کا نشانہ بنے۔ مغرب نے عدل اور معنویت (و روحانیت) کو تنزلی سے دوچار کر دیا ہے - وہ بغیر خدا کے 'معنویت' کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے انصاف کو بھی بے اثر اور آلودہ کر دیا ہے۔ مغرب والے انصاف کو اس قدر گرا دیتے ہیں کہ جب دو لوگ لڑ رہے ہوں تو وہ نہتے فریق کو ہتھیار دے دیتے ہیں تاکہ یہ دونوں خوب لڑیں۔  اُن کا مقصد صلح و آشتی نہیں بلکہ اپنے ہتھیاروں کے کاروبار کو فروغ دینا، اپنے ہتھیاروں کی کمپنیوں کو سرگرم کرنا اور منافع کمانا ہے۔ انہوں نے انسانی کرامت و وقار کے ساتھ رد عمل کے طور پر، برتاؤ روا رکھا ہے اور کرامت کی سطح کو بہت نیچے گرایا ہے۔ میں نے سینیگال کے سفر میں 'جزیرہ گورے' کا دورہ کیا جو غلاموں کے جزیرے کے نام سے مشہور ہے۔ یہ 300 سال تک غلاموں کی تجارت کا مرکز رہا ہے۔ جو وفود سینیگال جاتے ہیں انہیں وہاں بھی لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ مغرب کا شیدائی بننے سے باز رہیں۔

عصر حاضر میں سیاست اور مذہب کی نئی تعریف میں امام خمینیؒ کا کردار

آیت اللہ رمضانی نے امام خمینیؒ کے تصورِ کرامت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: امام خمینیؒ نے کرامت کو صرف ایک ردِعمل کے طور پر نہیں بلکہ ایک فعال تحریک کے طور پر پیش کیا جو دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے اور آخرت سے بھی۔ دین کی جو فہم امامؒ  نے ہمیں دی، وہ دوسروں سے یکسر مختلف تھی۔ وہ فرماتے تھے: 'میں آیا ہوں تاکہ تمہاری عظمت تمہیں لوٹا دوں، میں آیا ہوں تاکہ تمہاری خودداری تمہیں واپس دلاؤں' - اور اس جدوجہد میں وہ خود کو صرف ایک خادم سمجھتے تھے۔ امام خمینیؒ کی تحریک ایک پیغمبرانہ تحریک تھی۔

دینی حکومت کا تصور

انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: امامؒ کا ماننا تھا کہ دین کو معاشرے میں نافذ کرنے کے لئے حکومت کی ضرورت ہے۔ وہ عدل و کرامت کے تحقق کے لئے حکومت کے قیام کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ جدیدیت (Modernity) اور بعد جدیدیت (Postmodernity) کے دور میں بھی امامؒ نے دینی حکومت کے امکان کو عملی طور پر ثابت کیا۔ انقلاب سے پہلے بعض لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ دینی حکومت کا قیام ناممکن ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ دنیا میں کوئی مذہبی انقلاب رونما نہیں ہوا - تمام انقلاب یا لادینی (Laic) تھے یا سیکولر۔ لیکن امام خمینیؒ نے ایک مذہبی انقلاب کی قیادت کر کے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اُس دور میں قم اور جیلوں میں قید کے دور میں بھی بعض حضرات تدریجی اصلاحات کے قائل تھے، لیکن امامؒ واضح فرماتے تھے کہ تدریجی اصلاحات سے کام نہیں چلے گا؛ انقلاب ضروری ہے۔ چنانچہ ایک ایسا مذہبی انقلاب برپا ہوا جس نے دین کو معاشرے کے ہر شعبے میں مؤثر بنانے کا عزم کیا۔

کچھ نکتے:

عبادت کی جامع تعریف

انہوں نے امامؒ کے تصورِ عبادت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: دین صرف راتوں کے جاگنے، آنسو بہانے اور فردی عبادت تک محدود نہیں۔ امامؒ نے ہمیں اجتماعی عبادت سے روشناس کرایا۔ انسان کو توحیدی نظام کی طرف بڑھنا چاہیے، لیکن ساتھ ہی عدل کے میدان میں بھی سرگرم عمل رہنا چاہئے۔

مغرب اور توحیدی نظام کا تقابل

انھوں نے موجودہ دور کے چیلنجز پر بات کرتے ہوئے کہا: امام خمینیؒ چاہتے تھے کہ ہم توحید کو عملی زندگی میں ڈھالیں۔ مغرب نے کرامتِ انسانی کے تصور کو اس قدر پست کر دیا ہے کہ وہ مذہب سے عاری 'معنویت' کی بات کرتا ہے۔ ان کا تصورِ عدالت بھی متنازع ہے؛ وہ مسلح تصادم کو ہوا دے کر اسے 'انصاف' کا نام دیتے ہیں، حالانکہ ان کا مقصد صرف اپنے اسلحہ سازوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha