3 جون 2025 - 12:32
آیت اللہ رمضانی کا سینیگال کے صدر کے نمائندہ برائے مذہبی امور سے ملاقات/ ایران اور سینیگال کے درمیان علمی اور ثقافتی تعاون کے فروغ پر اتفاق

عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ رمضانی اور سینیگال کے صدر کے مذہبی امور کے نمائندے کے درمیان ایک دوستانہ ملاقات میں، فریقین نے اسلامی جمہوریہ ایران اور سینیگال کے درمیان علمی، ثقافتی اور مذہبی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی آیت اللہ رضا رمضانی ـ جو افریقی ملک سینیگال کی دینی شخصیات کی دعوت پر اس ملک کے دورے پر ہیں ـ نے سینیگال کے صدر کے نمائندہ برائے مذہبی امور ڈاکٹر جم ڈرامے (Dr. Djim Drame) سے ملاقات کی ہے۔

ایران اور سینیگال، اور دین، ثقافت اور مقاومت میں دیرینہ اشتراکات

آیت اللہ رمضانی نے ملاقات کے آغاز میں ایران اور سینیگال کے تعلقات اور اشتراکات کے بارے میں کہا: سینیگال مغربی افریقہ کے ایک اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ایران اور سینیگال کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں، اور فلسطین کے دفاع کے میدان میں سینیگال کی موجودگی مؤثر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اہم ترین اشتراکات میں سے ایک مذہبی امور سے متعلق ہے، کیونکہ سینیگال اور اسلامی جمہوریہ ایران دو مسلمان ممالک ہیں۔

انہوں نے اسلام میں علم و دانش کی عظمت مقام کے بارے میں کہا: کسی زمانے میں مسلمان علوم اور سائنسز کا مرکز اور فزکس، کیمسٹری جیسی بنیادی سائنسز کا سرچشمہ تھے۔ بنیادی طور پر مغرب میں موجود بہت سے علوم، حتیٰ کہ طب بھی، مشرق اور مسلمانوں سے لیا گیا ہے۔ ابن سینا کی کتاب 'القانون' طب کے چار شعبوں پر مشتمل ہے۔ وہ ایک عظیم ایرانی ریاضی دان اور فلسفی تھے۔ جرمنی میں بھی ابن سینا کے نام سے کلینکس قائم ہیں اور جرمن سائنسدانوں نے ابن سینا کی کتاب القانون پر شرحیں لکھی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کی علمی برتری کی تاریخ بہت طویل ہے۔

انھوں نے کسی ملک کی ترقی کی بنیادوں کے بارے میں کہا: "جدید اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لئے پہلا اصول ایمان اور انسانی اقدار کا فروغ ہے۔ اس معاملے میں ایران اور سینیگال کے درمیان بہت سے اشتراکات موجود ہیں۔ دوسرا اصول علم اور سائنس کی ترقی ہے۔ درحقیقت علم ہی ہے جو حکمرانی اور طاقت ساتھ لاتا ہے۔

انھوں نے مختلف شعبوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: 47 سال پہلے اسلامی جمہوریہ ایران علوم اور سائنسز میں دنیا بھر میں 57ویں نمبر پر تھا، لیکن اب ایران اوسطاً پندرہویں نمبر 15 پر ہے جبکہ نینو ٹیکنالوجی سمیت کچھ علوم میں ہم دنیا کے پانچویں نمبر پر ہیں۔

جدید اسلامی تہذیب علم، اخلاق اور عدالت کی روشنی میں

آیت اللہ رمضانی نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر نے انسانیت کے مستقبل کے لئے سات سفارشات پیش کی ہیں: "پہلی علم و سائنس کا فروغ ہے، دوسری اخلاق اور روحانیت، تیسری دنیا میں  عدل و انصاف کا قیام، چوتھی فساد، پانچویں برائی اور بدعنوانی کے خلاف جنگ ہے اور ساتویں ـ جو نہایت اہم ہے ـ یہ ہے کہ اسلامی طرزِ زندگی کو دنیا میں متعارف کرایا جائے، کیونکہ یہ جدید اسلامی تہذیب کا سافٹ ویئر اور نرم پہلو ہے۔ لہٰذا اسلامی جمہوریہ ایران سینیگال کو علم و دانش فراہم کر سکتا ہے، کیونکہ سینیگال کی سائنسی ترقی ایک مسلمان ملک کی ترقی ہے جو درحقیقت پوری دنیا میں مسلمانوں کی ترقی ہے۔

انھوں نے دنیا میں اسلام کا تعارف کروانے کے لئے موجودہ مواقع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: آج ہمارے پاس کچھ سنہری مواقع موجود ہیں جو پہلے کبھی میسر نہیں تھے؛ اسلام گذشتہ 40-50 سال کے دوران رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے، اسلامی معاشرے کے عملی میدان میں آکھڑا ہؤا۔ انقلاب سے پہلے تصور یہ تھا کہ دنیا میں کوئی مذہبی انقلاب بپا نہیں کرسکتا، تمام انقلابات یا لبرل ہوتے تھے یا سیکولر، لیکن امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کا انقلاب مذہبی بنیادوں پر تھا۔ البتہ ہمیں دین کو صرف انفرادی عقیدے تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے، بلکہ مذہب فرد، معاشرے اور حکومت، سبہی کے لئے، اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے دین کے مختلف نقطہ ہائے نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ہوئے کہا: کچھ دانشور دین کو محدود نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی تاثیر و افادیت بھی محدود ہو جاتی ہے۔ لیکن امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے ہمیں دین کے وسیع ترین نقطہ نظر سے روشناس کرایا، جس کی وجہ سے اس کی تأثیر اور کارکردگی بھی زیادہ سے زیادہ ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ دین نے استعماری نظام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

انھوں نے زور دے کر کہا: افریقہ ایک صاحب ثروت اور امیر براعظم ہے اور اس کی دولت کو افریقہ ہی میں افریقی عوام کے لئے خرچ ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے بہت سے افریقی ممالک نوآبادیاتی نظام کا شکار رہے ہیں۔ افریقہ اور بالخصوص مغربی افریقہ پر نوآبادیاتی تسلط کا طویل ترین اور تاریک ترین پس منظر فرانس کا ہے۔ آج ہم ایک آزاد اور پھلتے پھولتے سینیگال کو دیکھ رہے ہیں۔

آیت اللہ رمضانی نے وحدت اور یکجہتی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: اسلامی ممالک اور سینیگال کے لئے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہماری وحدت اور یکجہتی دن بدن بڑھتی رہے۔ پورے افریقہ کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کا نقطہ نظر یہی ہے۔ ہم افریقہ کے باصلاحیت طلباء کو ایران میں علم و سائنس کے ہر شعبے میں تعلیم دے سکتے ہیں۔"

سینیگال: افریقہ اور دنیا میں فلسطین کی حمایت کا علمبردار

مذہبی امور میں صدر سینیگال کے نمائندے جم ڈرامے اس موقع  پر کہا: "میں اس ملاقات سے بہت خوش ہوں اور آپ کے قیمتی نکات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

انھوں نے سینیگال کی عوام اور حکومت کی طرف سے فلسطین کی حمایت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: سینیگال افریقہ اور دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو فلسطین کی مدد کرتا ہے اور کبھی بھی فلسطین کا ساتھ دینے سے پیچھے نہیں ہٹا۔ 1969ء میں مسجد الاقصیٰ کو آگ لگانے کے واقعے کے بعد سے، سینیگال فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور صہیونیوں کے فلسطین سے انخلا کے موقف پر ڈٹا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، 1975ء سے اقوام متحدہ میں فلسطین کے دفاعی گروپ کے سربراہ کا کردار سینیگال ہی ادا کر رہا ہے۔ سینیگال کی آزادی کے بعد سے اب تک اس ملک کی تمام حکومتوں کا یہی موقف رہا ہے، خاص طور پر موجودہ حکومت جو کھل کر فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ہماری نئی حکومت کے لئے خودمختاری انتہائی اہم ہے۔ اسی لئے ہر فیصلے میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ حکومت ہر معاملے میں خودمختار ہو۔ جب ہماری حکومت نے فلسطین کو سینیگال میں سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی، تو دنیا کے بہت سے ممالک کا نقطہ نظر یہ نہیں تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینیگال کی حکومت حق کو قبول کرتی ہے، کبھی بھی ظلم اور ناانصافی کی حمایت نہیں کرتی اور ہمیشہ مظلوموں کی پشت پناہی کرتی ہے۔

سینیگال کی ایران کے ساتھ علمی و ثقافتی تبادلوں لئے آمادگی

ڈاکٹر جم ڈرامے نے سینیگال کے دینی پس منظر کے بارے میں کہا: سینیگال میں دین کی بہت پرانی تاریخ ہے۔ تحقیقات کے مطابق کم از کم ایک ہزار سال سے اسلام سینیگال میں موجود ہے۔ جب ہم دین کی بات کرتے ہیں تو درحقیقت اخلاقیات کی بات کرتے ہیں۔ سینیگال میں اسلام کی جڑیں بہت گہری ہیں اور سینیگالی عوام میں اسلامی اخلاقیات واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ ہر سینیگالی کے دل میں اسلام رچا بسا ہے۔ یہاں تک کہ 1603ء میں سینیگال میں ایک اسلامی یونیورسٹی موجود تھی جہاں مغربی افریقہ کے تمام ممالک سے طلباء آتے تھے، تعلیم حاصل کرتے تھے اور اپنے ممالک واپس جاتے تھے۔ اسی لئے سینیگال اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان گہرا ربط اور وسیع پیمانے پر اشتراکات پائے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: افریقہ سے لے کر ایشیا تک مختلف اسلامی ممالک میں سینیگالی فارغ التحصیل افراد موجود ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہاں گئے ہیں۔ دوسری طرف سے، مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے سینیگالی طلباء کو قبول کرنے کی پیشکش کی ہے۔ لہٰذا ہم علمی شعبوں خصوصاً علمی تبادلوں اور تجارت کے میدان میں باہمی تعاون کر سکتے ہیں۔ ہم افریقہ کی سائنسی مصنوعات آپ کو پیش کر سکتے ہیں اور آپ کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر حسن عسکری، ایران کے ثقافتی مشیر علیرضا وزین، جامعۃ المصطفیٰ کے نمائندے حجت الاسلام حسین اسدی، اور عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے مشیر اور تہران یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کلانتری ، موجود تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha