20 اپریل 2025 - 15:43
برطانوی سامراج نے اسرائیل کی بنیاد رکھی، یہودی مؤرخ

یہودی مؤرخ نے کہا: اسرائیلی - فلسطینی تنازع کی بنیاد برطانیہ میں رکھی گئی۔ 

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسرائیلی مؤرخ آوی شلائم (Avi Shlaim) نے کہا: ہم برطانیہ صہیونیوں کا حلیف بنا تاکہ وہ مل کر یہودی ریاست بنا دیں، جبکہ فلسطین میں کی 90 فیصد آبادی فلسطینی عربوں کی تھی۔ صہیونیت کا مقصد ابتداء ہی سے فلسطینیوں کو حذف کرنا اور مٹا دینا تھا؛ سنہ 1948ع‍ میں فلسطین کے "قومی صفایا" کا شائستہ متبادل عنوان "منتقلی" رکھا گیا اور بروئے کار لایا گیا۔برطانیہ نے فلسطینیوں کا حق خودارادیت چھین لیا اور صریح نسل پرستی کی رو سے عربوں کو "نیچ ذات" کہا نتیجہ یہ ہؤا کہ ایک تہائی فلسطینی آبادی کو پناہ گزینی کی زندگی گذارنا پڑی اور فلسطین کا نام نقشے سے مٹ گیا!
غزہ کی موجودہ جنگ 1917ع‍ میں "اعلانِ بالفور" (Balfour Declaration) کا براہ راست نتیجہ ہے۔ کیونکہ پہلی عالمی جنگ کے آخر میں برطانیہ صہیونی تحریک کا حلیف بنا۔ صہیونیت ایک "آبادکار نوآبادیاتی تحریک" (Settler Colnial Movement) ہے، اور ان کا حتمی ہدف فلسطین میں ایک خودمختار یہودی ریاست کا قیام تھا۔ لیکن "یہودی ریاست" کا عنوان مخالفتوں کا سبب بن سکتا تھا چنانچہ صہیونی "یہودیوں کے لئے قومی وطن" (National home for the Jewish people) کا عنوان استعمال کرتے تھے۔ 

اینکر: صہیونیت ایک پراجیکٹ کے طور پر ہمیشہ سے ارادہ رکھتی تھی کہ فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن سے حذف کر دے۔ یہ ان تمام سیاسی اشرافیہ کا مرکزی نقطہ نگاہ تھا جو صہیونی نظریئے کی پیروی کرتے تھے۔ تو کیا صہیونیت کے عزائم کے بارے میں اس طرح کی عبارت کو بروئے کار لانا منصفانہ ہوگا؟
جواب: ایک یہودی ملک کے قیام کے لئے ـ وہ بھی ایسے حالات میں کہ اس سرزمین کی اکثریتی آبادی عربوں پر مشتمل تھی ـ وہ [صہیونی یہودی] عرب عوام کو مکمل طور پر حذف اور نیست و نابود کرنے پر مجبور تھے۔
سنہ 1930ع‍ کی دہائی کے آخر میں صہیونی حلقوں میں عرب عوام کی فلسطین سے منتقلی کے مسئلے پر سنجیدہ بحث و مباحثے چھڑ گئے تھے۔ البتہ "منتقلی" کا لفظ "نابودی" کے لفظ کا شائستہ متبادل لفظ تھا۔ چنانچہ یہ بحث ہوتی تھی اور یہ ان مباحث میں سے تھی جو صہیونی اس زمین میں پیش نظر رکھتے تھے۔ یہ بحث باہر سے نہیں آئی تھی بلکہ صہیونیوں کے زیر بحث اندرونی مسائل میں سے تھی۔ لیکن قومی اور نسلی صفایا سنہ 1948ع‍ میں انجام پایا۔ 
سنہ 1917ع‍ میں فلسطین میں عربوں کی آبادی 90 فیصد اور یہودیوں کی آبادی 10 فیصد تھی اور یہودی اس سال فلسطین کی دو فیصد اراضی کے مالک تھے اس کے باوجود امریکہ نے یہودی اقلیت کو قومی حقوق اور شہریت کا حق دیا اور اکثریتی فلسطینیوں کے قومی حقوق اور شہری حقوق اور حق خودارادیت کو چھین لیا۔ 
برطانیہ کا کہنا تھا کہ وہ [برطانوی] "یہودیوں کے لئے قومی وطن " کی حمایت کریں گے بشرطیکہ وہ "فلسطین کی غیر یہودی آبادیوں" کے شہری اور دینی حقوق اور روزگار کا حق خطرے میں نہ ڈالیں۔ چنانچہ برطانوی بقیہ آبادی ـ یعنی 90 فیص فلسطینیوں ـ کے لئے کسی قسم کی قدر و قیمت کے قائل نہیں ہوئے؛ فلسطین میں غیر یہودی غیر اہم تھے اور صرف یہودی اہمیت رکھتے تھے۔ 
فلسطین پر برطانوی سَرپَرَستی (Guardianship) کا مقصد یہ تھا کہ فلسطین میں جمہوریت کو اس وقت روک لیا جائے جب تک کہ یہودیوں کی آبادی اکثریت نہ بن جائے! یہ مسئلہ آخرکار 1948ع‍ میں ـ اور جنگ کے دوران ـ یقینی ہو گیا اور یہودی اقلیت اکثریت میں بدل گئی اور یہ صرف اس وقت ممکن ہؤا کہ یہودیوں نے فلسطینیوں کا قومی صفایا کر دیا۔ 
دس لاکھ فلسطینیوں کے تین چوتھائی حصے کو پناہ گزین ہونا پڑا اور فلسطین کا نام نقشے سے مٹا دیا گیا۔
بالفور (Arthur James Balfour)، چرچل (Winston Churchill) اور لوئیڈ (David Lloyd George) نے بعد میں اعتراف کیا کہ "یہودیوں کے لئے قومی وطن" سے ان کی مراد یہ تھی کہ "ایک ملک" کو ان کے نام کر دیا جائے! 

چرچل نے کہا تھا: "صرف اس وجہ سے ایک کتا کچھ عرصہ اپنی کوٹھڑی میں زندگی بسر کرتا رہا ہے، وہ اس کوٹھڑی کا مالک بننے کا حقدار نہیں ہے"۔

بالفور، چرچل اور لوئیڈ نے بعد میں اعتراف کیا کہ "یہودیوں کے لئے قومی وطن" سے ان کی مراد یہ تھی کہ "ایک ملک" کو یہودیوں کے نام کر دیا جائے! اعلانِ بالفور ایک استعماری دستاویز کا اتمّ نمونہ ہے کیونکہ اس دستاویز نے اکثریتی عوام کی مرضی اور مطالبے کو یکسر نظرانداز کر دیا۔

چنانچہ اس اعلان کا ایک فریق برطانوی استعماری تھے اور دوسرا فریق صہیونی استعماری تھے جو برطانیہ کے نظریئے کے موافق تھے۔

اور ہاں! فلسطین میں برطانوی پالیسی کا ایک نسل پرستانہ پہلو بھی تھا؛ برطانوی وہاں کے عرب باشندوں کو نیچ اور حقیر سمجھتے تھے۔

چرچل نے ایک موقع پر فلسطینیوں کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا: "صرف اس وجہ سے ایک کتا کچھ عرصہ اپنی کوٹھڑی میں زندگی بسر کرتا رہا ہے، وہ اس کوٹھڑی کا مالک بننے کا حقدار نہیں ہے؛ میرا خیال یہ ہے کہ عربوں کو اپنی جگہ ایک بہتر اور زیادہ ذہین نسل اور عالمی سطح کی نسل کو دینا چاہئے! ایسی نسل جس کا فائدہ دنیا کو پہنچے گا اور فلسطینیوں کو ان یہودیوں کے لئے راستہ کھولنا چاہئے"۔ یہ برطانیہ کے سیاسی اشرافیہ کی نسل پرستی کی انتہائی نمایاں اور انتہائی تلخ مثال ہے۔

یہ درست ہے کہ چرچل کی یہ تقریر دہلا دینے والی ہے لیکن غیر متوقعہ نہیں ہے، کیونکہ نسل پرستی اور دنیا پر تسلط پسندی کے رجحانات ہمیشہ ایک ساتھ رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha