جعلی صہیونی ریاست اور اس کے مجرم لیڈر سے امریکی صدر کی مکمل عقیدت نے ـ ایران پر خبیثانہ فوجی حملے ميں بھی اور غزہ کی پٹی میں صریح نسل کشی کے دوران بھی ـ امریکی عوام کے ایک بڑے حصے کو (خاص طور پر گذشتہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے حامیوں) کو حیرت، مایوسی اور غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔
امریکہ میں ـ واشنگٹن میں بااثر شخصیات کو تل ابیب حکومت کے قابو میں لانے کی غرض سے ـ جیفری ایپسٹین کی سرکردگی میں موساد کے جنسی بلیک میلنگ کے بارے میں قیاس آرائیوں کے علاوہ، بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صہیونی ریاست کی غیر مشروط حمایت خارجہ پالیسی کا ایک اصول ہن گئی ہے، بلکہ اس نے امریکی سیاسی ڈھانچے کے اندر ایک 'نظریاتی ڈھانچہ' تشکیل دیا ہے۔
ترکی کے تھنک ٹینک "TRT ورلڈ ریسرچ سینٹر" (TRT World Research Center) کی ویب سائٹ میں درج ذیل مضمون ایران کے خلاف 12 روزہ صہیو-امریکی جنگ (20 جون) کے درمیان شائع ہوا اور اس میں واشنگٹن میں اسرائیل سے عقیدت کی اس "دستور" یا "رسم" کی تشریح کی گئی ہے۔
اسرائیل ـ کئی دہائیوں کی جارحیت کے عوض کسی بھی قسم کی سزا ملنے سے کئی دہائیوں کے استثنیٰ سے وجود میں آنے والی گستاخی کی بنا پر، ـ اب مکمل طور پر فوجی لاپرواہی کا شکار ہو چکا ہے، ایسی لاپرواہی جس نے امریکہ اور مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے والی افراتفری کے ایک نئے باب میں گھسیٹ لیا ہے۔ لیکن ان حقائق سے واقفیت کے باوجود، امریکہ اسرائیل کو سفارتی اور عسکری طور پر غیر مشروط حمایت فراہم کر رہا ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی میں اس انتھک حمایت کی بنیاد نہ صرف دفاعی صنعت کے معاشی مفادات بلکہ وفاداری کی نظریاتی رسومات میں بھی ہے۔ تاہم، یہ حمایت اب امریکہ کے لئے صرف ایک اسٹریٹجک ترجیح نہیں رہی۔ یہ بڑھتا ہوا سیکورٹی رسک اور امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے، امریکہ نے اسرائیل کو کم از کم 260 بلین ڈالر کی فوجی امداد دی ہے۔ واشنگٹن فی الحال اسرائیل کو سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، یہ اعداد و شمار اوباما انتظامیہ کے دوران دستخط کیے گئے 10 سالہ مفاہمت کی یادداشت کے تحت مرتب کیے گئے ہیں، جس میں مالی سال 2019-2028 شامل ہیں۔
کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق اسرائیل کو ملنے والی امریکی فوجی امداد کا تقریباً 80 فیصد امریکی ساختہ دفاعی مصنوعات پر خرچ ہونا چاہئے۔ یہ اسرائیل کو ایک گاہک اور امریکی ہتھیار ٹیسٹ کرنے کا مرکز بنا دیتا ہے۔ جو چیز غیر ملکی امداد معلوم ہوتی ہے وہ امریکی فوجی صنعت کے لئے سبسڈی کے طور پر کام کرتی ہے۔ جب کہ اسرائیل جدید ہتھیار حاصل کرتا ہے، امریکی دفاعی شعبہ ضمانت شدہ فروخت اور میدان جنگ میں ٹیسٹ سسٹم سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
میدان میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے علاوہ، آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم پر غور کریں: 2011 اور 2021 کے درمیان، امریکہ نے اس کی ترقی میں مجموعی طور پر 1.6 بلین ڈالر کا تعاون کیا، اور 2022 میں، کانگریس نے مزید 1 بلین ڈالر کی منظوری دی۔ درحقیقت، اس فنڈنگ سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی امریکی کمپنیاں تھیں جنہوں نے سسٹم کے اجزاء اور سافٹ ویئر کا بنیادی ڈھانچہ تیار کیا۔
یہ "تنازعات کا منافع سے منسلک ڈھانچہ" ایک ایسے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس میں تنازعات کو امن پر ترجیح دی جاتی ہے: زیادہ تنازعات، زیادہ فروخت، اور زیادہ ہتھیاروں کا تجربہ؛ [وہ بھی فرضی میدان میں نہیں بلکہ حقیقی میدان میں جہاں انسانی آبادی اس کا براہ راست نشانہ بنتی ہے]۔ اس طرح اسرائیل نہ صرف امریکہ کا سب سے وفادار اتحادی بلکہ اس کی دفاعی صنعت کے لئے ایک ضروری تجارتی پارٹنر بھی بن جاتا ہے۔
سیاسی فیصلہ سازی پر اس تجارتی ڈھانچے کے اثر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جیمز وولسی اور سابق وزیر دفاع لیون پنیٹا جیسے لوگ اپنے عہدے کے دوران اور اس کے بعد، اسرائیل کے کٹر حامی رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ افراد اکثر دفاعی کمپنیوں کے بورڈز یا اسرائیل نواز تھنک ٹینکس میں عہدہ سنبھالتے ہیں۔
یہ "ان دی وہیل" میکانزم امریکی سیکورٹی بیوروکریسی کے اندر اسرائیل کے ساتھ غیر مشروط وفاداری کو متعارف اور رائج بناتا ہے۔
چنانچہ، تل ابیب کے بارے میں واشنگٹن کا موقف نہ صرف خارجہ پالیسی کی ترجیح ہے، بلکہ یہ ایک گہرا ادارہ جاتی ردعمل بھی ہے۔ اسرائیل اب صرف امریکہ کا اتحادی نہیں بلکہ امریکی سیاسی-فوجی فیصلہ سازی کے طریقہ کار کا ساختیاتی جزو بن چکا ہے۔
امریکی سیاست میں، اسرائیل کی حمایت منطقی تجزیے سے آگے نکل کر 'امریکی ریاست کے لئے' نظریاتی وفاداری کا امتحان بن چکی ہے؛ یہاں تک کہ 2024 کے صدارتی انتخابات کے دوران، دونوں اہم امیدوار، کامالا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ، 'اسرائیل کے لئے اپنی حمایت ظاہر کرنے' کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے رہے۔
ہیرس نے اسرائیل کے لئے 14.3 ارب ڈالر کے فوجی امدادی پیکیج کا دفاع کیا، اُس دور میں جب غزہ میں ہزاروں شہری اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہو رہے تھے۔
ٹرمپ نے بھی ان ہی حالات میں اعلان کیا کہ اگر دوبارہ منتخب ہؤا تو 'وہ اسرائیل کی تمام خواہشات کو پورا کرے گا'۔
ان وعدوں میں امریکی عوام کی خواہشات کا کوئی تذکرہ نہیں تھا، کیونکہ وہ دونوں جانتے تھے کہ 'صرف اسرائیل کی فرمانبرداری سے' ہی وہ انتخابات جیت سکتے ہیں۔
تاہم، یہ رویہ امریکی عوام کے بڑھتے ہوئے تنقیدی موقف سے متصادم ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق، نصف سے زیادہ (53%) امریکی بالغوں کا اسرائیل کے بارے میں نقطہ نظر منفی ہے، جو مارچ 2022 میں 42٪ سے زیادہ ہے۔ جب کہ عوامی تنقید بڑھ رہی ہے، سیاسی طبقہ خاموش ہے۔ امریکہ میں اسرائیل کی مخالفت "سیاسی خودکشی" کے مترادف ہے۔"
مثال کے طور پر نمائندہ ایلہان عمر کو غزہ میں اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر خارجہ امور کی کمیٹی سے ہٹا دیا گیا۔ امریکہ میں اسرائیل پر تنقید کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھا گیا ہے۔ [آپ امریکی مصنوعات کا مقاطعہ کر سکتے ہیں لیکن اگر اسرائیلی مصنوعات کا مقاطعہ کریں گے، تو یہود دشمنی کے ملزم (بلکہ مجرم) ٹہریں گے، آپ پر سیلاب یا طوفان آئے تو امدادی سامان وصول کرنے کے لئے آپ کو اسرائیل کی وفاداری کی دستاویز پر دستخط کرنا پڑتے ہیں!]
اس نظام کی پائیداری طاقتور لابنگ میکانزم کے ذریعے ممکن ہے۔ امریکہ-اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC) نے صرف 2024 کے صدارتی انتخابات میں 53 ملین ڈالر سے زائد، براہ راست، مالی امداد دی؛ جبکہ کل عطیات 70 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئے۔ یہ حقیقت ـ کہ AIPAC کے حمایت یافتہ 365 امیدواروں میں سے 361 کی جیت جاتے ہیں ـ امریکی سیاست میں اس لابنگ نیٹ ورک کے گہرے اثر کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ مالی دباؤ سیاسی تنوع کو کچل دیتا ہے۔ کانگریس میں اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کرنے والی آوازیں جلد ہی دیوار سے لگائی جاتی ہیں۔ چنانچہ اسرائیلی کی کھینچی ہوئی لکیر پر چلنا، مزید جمہوری نہیں ہے، بلکہ لابی کے مفادات کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔
امریکہ بظاہر یہ سب اسرائیل کی سلامتی کے لئے کر رہا ہے، لیکن اسرائیل کی یہ غیر مشروط حمایت اب خود امریکہ کی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔ رپورٹس کہ تل ابیب واشنگٹن کو خطے کے ممالک کے خلاف حملوں کے کچھ منصوبوں کے بارے میں پیشگی اطلاع نہیں دے سکا ہے!! یہ اسرائیل کو ایک "غیر کنٹرول شدہ خطرناک اداکار" کے طور پر درجہ بندی کرنے کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
اسرائیل کی سلامتی کے بہانے یہ غیر مشروط حمایت اب خود امریکہ کی سلامتی کے لئے سنگین خطرات پیدا کر رہی ہے۔ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ 'مثلاً تل ابیب، واشنگٹن کو خطے کے ممالک پر حملوں کے بعض پروگراموں سے پییشگی اطلاع نہیں دے سکا ہے'، جو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کو چاہئے کہ اسرائیل کو 'کنٹرول سے باہر خطرناک عنصر' کے طور پر درجہ بند کر دے؛ [لیکن کیا اس کا اختیار اس کے پاس ہے؟]
ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد نہ صرف خطے میں امریکی فوجی و غیر فوجی اثاثے ایک بار پھر ممکنہ ہدف بن گئے ہیں، بلکہ اسرائیل کی حمایت نے امریکہ کی سلامتی اور اس کی [مبینہ] عالمی قیادت کی تصویر کو بھی بگاڑ دیا ہے۔
بین الاقوامی کمیشن آف جیورسٹس کی 2023 کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات کے لئے امریکی مالی معاونت اس [امریکہ] کو قانونی خطرے سے دوچار کر سکتی ہے اور اسے جنگی جرائم میں شریک قرار دے سکتی ہے۔
اس صورت حال نے امریکہ کو نہ صرف سیاسی بلکہ قانونی طور پر بھی کمزور اور زد پذیر (Vulnerable) اداکار بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس صورت حال کا دردناک حساب کتاب، کچھ یوں بنتا ہے کہ واشنگٹن کی اسرائیل کی 'غیر مشروط حمایت' ایک 'اسٹراٹیجک اتحاد' سے نکل کر 'تشدد کی خودکار مشین' بن چکی ہے - ایسی مشین جو ہتھیار بنانے والوں کو امیر بناتی ہے، مخالفوں کو خاموش کراتی ہے، اور امریکہ کو تشدد کے ایک ایسے چکر میں پھنسا دیتی ہے جس پر اب اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
امریکہ ـ غزہ پر گرائے گئے ہر بم، ایران پر ہر لاپرواہ حملے، اور کانگریس کی طرف سے 'مہر شدہ' اربوں ڈالر کے اسلحے کی ہر کھیپ، کے ساتھ ـ اپنی ساکھ، سلامتی اور قانونی استثنیٰ کا ایک بڑا حصہ تل ابیب کے جنگجوئی کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔
یہ سفارت کاری نہیں ہے؛ یہ ایک قوم کے یرغمالی بن جانے کی کیفیت ہے۔ امریکی عوام ـ جو تیزی سے اسرائیل کے مظالم پر تنقید کر رہے ہیں، ـ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے نمائندے ووٹروں کی جوابدہی کی فریادوں پر AIPAC کے کنٹرول کو ترجیح دے رہے ہیں۔ [عالمی عدالت سے جنگی مجرم کے طور پر مطلوب مجرم نیتن یاہو کے لئے کانگریس کے اکثریتی اراکین کا اٹھ کر تالیاں بجانا اسی یرغمالی پن کا ایک عملی ثبوت ہے]۔
دنیا واشنگٹن پر نظررکھتی ہے اور دیکھ رہی ہے کہ، جبکہ وہ 'عالمی استحکام کا تحفظ' جیسے دعوے کو طوطے کی طرح دہرا رہا ہوتا ہے، جنگی جرائم کو فنڈز بھی فراہم کرتا ہے۔ اور تاریخ بڑی بے رحمی کے ساتھ گواہی دے گی کہ امریکہ عالمی قیادت کے لئے نہیں دنیا کو تباہ کرنے پر اپنی طاقت ضائع کر رہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ امریکی عوام اس بات پر غور کریں کہ اس اتحاد سے حقیقی معنوں میں فائدہ کس کو ہو رہا ہے؛ امریکی عوام اور ان کے مفادات کو، یا فوجی صنعتی کمپلیکس اور لابنگ اشرافیہ کو؟ ان سوالوں کا جرات مندی سے جواب دینے سے ہی امریکی جمہوریت مشرق وسطیٰ کے بحرانوں کے حل کا حصہ بن سکتی ہے جب اب وہ یہاں بحران سازی میں بنیادی کر رہا ہے؛
نکتہ، مضمون کے تسلسل میں:
امریکہ کا چہیتا اور اس کی تمام داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر مسلط 'اسرائیل' صرف بحرانوں میں جینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور امن و سلامتی میں اس کی موت ہے۔ امریکیوں کو آنے والے بحرانوں سے بچنا ہے تو انہیں اس عنصر سے جان چھڑانا ہوگی جو امریکہ کو بحران سازی کا آوزار بنا چکا ہے؛ ورنہ تو بڑی امریکی سلطنت پر آنے والا بحران بھی بہت بڑا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
https://www.mashreghnews.ir/news/1737040
آپ کا تبصرہ