بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سلمانوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام)، 10 رجب المرجب 195 ہجری قمری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ کی امامت کا دور تاریخِ تشیّع کے انتہائی حساس اور مشکل ادوار میں سے ہے۔ امام رضا (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد، شیعہ معاشرہ سیاسی دباؤ، عباسی حکومت کی شدید نگرانی اور شک و شبہات کے بھاری ماحول کا سامنا کر رہا تھا۔ عباسی خلافت، خاص طور پر مأمون اور معتصم کے دور میں، امام کی براہ راست نگرانی کرنے، شیعیان اہل بیتؑ سے ان کے تعلق کو محدود کرنے، ہدایت یافتہ مناظروں کا انعقاد کرنے، اور 'کم سنّی میں امامت' کے بارے میں شکوک پیدا کرنے کے ذریعے امام جواد (علیہ السلام) کے الٰہی مقام کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی تھی۔
اس کے باوجود، امام جواد (علیہ السلام) نے نہ صرف معاشرے کی فکری اور روحانی قیادت کا سلسلہ قائم رکھا، بلکہ ذمہ دار، اخلاقیات کے پابند اور خدمت گزار انسانوں کی تربیت کے ذریعے تشیّع کو اندر سے مضبوط کیا۔ آپؑ کی عملی سیرت کے نمایاں ترین پہلوؤں میں سے ایک، لوگوں کی مشکل کشائی (اور مسائل حل کرنا) اور انسانی تعلقات کی اصلاح ہے؛ یہ وہ طریقہ کار ہے جو معاشرے کو سیاسی و سماجی دباؤ کے مقابلے میں مضبوط اور پائیدار بنا دیتا ہے۔
1۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنا؛ الٰہی نعمتوں کی بقا کا ذریعہ
امام جواد (علیہ السلام) لوگوں کو دوسروں کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش اور پہل کرنے کی دعوت دیتے تھے اور اسے الٰہی نعمتوں کے تحفظ کا سبب قرار دیتے تھے۔
پہلی روایت:
"إِنَّ لِلَّهِ عِبَاداً يَخُصُّهُمْ بِدَوَامِ النِّعَمِ، فَلَا تَزَالُ فِيهِمْ مَا بَذَلُوهَا، فَإِذَا مَنَعُوهَا نَزَعَهَا عَنْهُمْ، وَحَوَّلَها إِلَى غَيْرِهِمْ؛ [1]
خدا کے کچھ خاص بندے ہیں جنہیں وہ نعمتوں کے دوام سے نوازتا ہے؛ جب تک وہ انہیں "دوسروں کے لئے" خرچ کرتے رہتے ہیں، نعمتیں ان کے پاس قائم و دائم رہتی ہیں، لیکن اگر وہ بخشش ارن خدمت سے دریغ کریں، تو خدا وہ نعمت ان سے (واپس) لے لیتا ہے اور دوسروں کو دے دیتا ہے۔ خدمت کے بغیر نعمت زوال کے خطرے سے دوچار رہتی ہے۔"
لوگوں کی کارگشائی زندگی میں برکت کے بقاء کا سبب ہے۔
دولت، علم اور سماجی حیثیت 'ذمہ دار بننے' کا باعث ہیں۔
دوسری روایت:
"مَا عَظُمَتْ نِعَمُ اللَّهِ عَلَى أَحَدٍ إِلَّا عَظُمَتْ إِلَيْهِ حَوَائِجُ النَّاسِ، فَمَنْ لَمْ يَحْتَمِلْ تِلْكَ الْمُؤْنَةَ عَرَّضَ تِلْكَ النِّعْمَةَ لِلزَّوَالِ؛ [2]
جب کسی پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں فراواں ہوجاتی ہیں، اس کی طرف لوگوں کی حاجتمندی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے؛ اور جو کوئی اس ذمہ داری کے اس بوجھ کو برداشت نہ کر سکے، اس نے اپنی نعمت کو تباہی کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔"
سماجی ذمہ داری، نعمت کی اہلیت کا معیار ہے۔ ضرورتمندوں کے رجوع کرنے سے گھبرانا اور شکایت کرنا، ایمانی بصیرت کی کمزوری کی علامت ہے۔ "صحتمند معاشرہ ذمہ دار افراد کے کندھوں پر تشکیل پاتا ہے۔"
2۔ اخلاقی مشکل کشائی؛ سماجی سلوک کے آداب
امام جواد (علیہ السلام) مشکل کشائی کو صرف مالی امدادد تک محدود نہیں کرتے، بلکہ طرز عمل، کلام اور انسانی تعلقات کی اصلاح کو اس [مشکل کشائی] کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
پہلی روایت:
"ثَلَاثُ خِصَالٍ تَجْلِبُ فِيهِنَّ الْمَوَدَّةَ: الْإِنْصَافُ فِي الْمُعَاشَرَةِ، وَالْمُوَاسَاةُ فِي الشِّدَّةِ، وَالِانْطِوَاءُ عَلَى قَلْبٍ سَلِيمٍ؛ [3]
تین خصلتیں محبت لاتی ہیں: معاشرت میں انصاف، سختیوں میں دوسروں سے ہمدردی اور پاک و صحتمند دل کا مالک ہونا۔"
محض مشکل حل کرنا ہی مسئلے کا حل نہیں ہے؛ نفسیاتی سکون اور سماجی اعتماد پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔
دوسری روایت:
"ثَلَاثَةٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ لَمْ يَنْدَمْ: تَرْكُ الْعَجَلَةِ، وَالْمَشُورَةُ، وَالتَّوَكُّلُ عَلَى اللَّهِ عِنْدَ الْعَزِيمَةِ… وَمَنْ نَصَحَ أَخَاهُ سِرّاً فَقَدْ زَانَهُ، وَمَنْ نَصَحَهُ عَلَانِيَةً فَقَدْ شَانَهُ؛ [4]
جس میں تیں خصوصیت تھیں وہ کبھی پشیمان نہیں ہؤا: جلد بازی سے گریز کرنا، مشورہ کرنا، اور فیصلہ کرتے وقت اللہ پر بھروسہ کرنا۔۔۔ اور جس نے اپنے بھائی کو چھپ کر نصیحت کی اس نے اسے زینت بخشی اور جس نے اسے کھلے عام [لوگوں کے سامنے] نصیحت کی اس نے اسے رسوا کر دیا۔"
جلد بازی اور تدبیر و انتظام کا فقدان، مسائل اور مشکلات کا سرچشمہ ہے۔
صحیح نصیحت، ایک قسم کی اخلاقی مشکل کشائی ہے۔
انسانوں کی عزت و وقار کا تحفظ، ان کی اصلاح کی تمہید ہے۔
تیسری روایت:
"عُنْوَانُ صَحِيفَةِ الْمُؤْمِنِ حُسْنُ خُلُقِهِ… وَحُسْنُ الْأَدَبِ زِينَةُ الْعَقْلِ، وَالْجَمَالُ فِي اللِّسَانِ، وَالْكَمَالُ فِي الْعَقْلِ؛ [5]
مؤمن کے نامۂ اعمال کا عنوان اس کا حُسنِ اخلاق ہے۔۔۔ اور حُسنِ اخلاق 'عقل کی زینت، اور زبان کی خوبصورتی، اور عقل کا کمال' ہے۔"
خوش اخلاقی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
صحیح کلام بہت سے سماجی گرہیں کھول دیتا ہے۔
ادب و شائستگی، اور عقلیت و سمجھداری، صحتمند معاشرتی تعامل کی بنیاد ہے۔
امام جواد (علیہ السلام) کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی مشکل کشائی ایک عملِ صالح اور ذخیرۀ آخرت بھی ہے، اور نعمت کے تحفظ، سماجی یکجہتی اور سیاسی و ثقافتی دباؤ کے مقابلے میں مزاحمت کے لئے ایک الہی ضمانت بھی ہے۔ وہ معاشرہ جس میں خدمت، انصاف، اخلاق اور ذمہ داری زندہ ہوں، وہ [نظم و نسق پر کاربند فرض شناس افراد کا مثالی معاشرہ بن جائے گا اور وہ] کبھی بھی تعطل کا شکار نہیں ہوگآ۔ جو بھی سماجی اور انتظامی عہدے پر فائز ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت کو اپنے پروگراموں کا محور بنائے؛ جیسا کہ امام جواد (علیہ السلام) نے فرمایا:
"إعلَم أنَّكَ لَن تَخلُوَ مِن عَينِ اللّه ِ فَانظُر كَيفَ تَكُونُ؛ [6]
جان لو کہ تو خدا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے، پس دیکھو تو کیسا ہے۔"
اور یہی آپؑ کے نام آپؑ کے والد ماجد امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) کے خط میں بھی بیان ہؤا ہے:
"فأنْفِقْ وَلَا تَخْشَ مَنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْتَاراً؛ [7]
خدا کی راہ میں خرچ کرو اور اللہ کی طرف کی تنگدستی سے مت ڈرو"۔
مذکورہ حدیث کے حوالے سے اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کا کلام:
"رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بلال سے فرمایا: "انفق یا بلال؛ انفاق و خیرات کرو، "ولا تخش من ذی العرش اقلالا»؛ خدائے متعال سے قلت اور تنگدستی کا خوف نہ کرو؛ اللہ پہنچا دے گا۔۔۔ [8] امام ہشتم علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے بھی اپنے بیٹے امام جواد (علیہ السلام) کو ایک خط لکھا، آپؑ نے امام جواد (علیہ السلام) سے مخاطِب ہوکر تھوڑے سے فرق کے ساتھ اسی عبارت سے استفادہ کیا اور فرمایا: "فأنْفِقْ وَلَا تَخْشَ مَنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْتَاراً؛ بیٹا! خدا کی راہ میں خرچ کرو اور اس بات سے مت ڈرو کہ خدائے متعال تمہیں سختی اور تنگدستی میں ڈال دے گا۔ اسلام کا یہی طرز فکر ہے۔" [9]
اور خالق متعال کا ارشاد ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ؛ [10]
اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے [آنے والے] کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ اس سے بخوبی آگاہ ہے جو تم کرتے ہو"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: آیت اللہ عباس کعبی ـ 31 دسمبر 2025ع
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ الاربلی، علی بن عیسیٰ، كشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۂ، ج2، ص346۔
[2]۔ الحُرُّ العَاملی، محمد بن حسن، الفصول المہمۃ فی أصول الأئمۃ، ص274-275۔
[3]۔ الاربلی، كشف الغمّۃ، ج3، ص139۔
[4]۔ الاربلی، کشف الغمہ، ج3، ص141-142۔
[5]۔ الاربلی، کشف الغمہ، ج3، ص139۔
[6]۔ الحرانی، حسن بن علی بن حسین بن شُعبَہ، تُحَفُ العقول عن آل الرسول، ص455۔
[7]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج4، ص43۔
[8]۔ المنذری، عبد العظیم بن عبد القوی، الترغیب و الترہیب، ج2، ص51۔
[9]۔ خطاب بمورخہ نومبر 1987
[10]۔ سورہ حشر، آیت 18۔
آپ کا تبصرہ