12 نومبر 2025 - 16:23
مآخذ: ابنا
امریکیوں کا غزہ میں دہشتگرد گروہوں سے رابطہ،ٹرمپ کے امن منصوبے کا مستقبل غیر یقینی

،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر خصوصی جَیرڈ کُوشنر کے حالیہ دورۂ اسرائیل کے دوران امریکی حکام نے غزہ میں سرگرم مسلح گروہوں سے رابطے قائم کیے ہیں۔

اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر خصوصی جَیرڈ کُوشنر کے حالیہ دورۂ اسرائیل کے دوران امریکی حکام نے غزہ میں سرگرم مسلح گروہوں سے رابطے قائم کیے ہیں۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل نے غزہ میں بین الاقوامی امن فوج کی تعیناتی کی مخالفت کی ہے، اور اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ ان گروہوں کو متبادل سلامتی فورس کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔

عبرانی روزنامہ اسرائیل ہیوم کی رپورٹ کے مطابق، کوشنر نے اسرائیلی حکام کی ثالثی میں غزہ کے دو مسلح گروہوں کے سربراہان، یاسر ابوشباب  اور حسام الاسطل کے ساتھ ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق، یہ ملاقات امریکی قیادت میں قائم بین الاقوامی کمانڈ سینٹر کریات گات میں ہوئی، جہاں غزہ کے اندر "سلامتی کے انتظامات" پر بات چیت کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام ان گروہوں کے ساتھ ایسا فریم ورک تشکیل دینا چاہتے ہیں جس کے تحت یہ گروہ غزہ کے مخصوص علاقوں میں نظم و نسق اور سیکیورٹی برقرار رکھیں۔ اس کے بدلے، ابوشباب اور الاسطل نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ ان کی سلامتی کی ضمانت دے اور انہیں حماس کے خلاف کارروائیوں میں حمایت فراہم کرے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق، اسرائیل چاہتا ہے کہ ان گروہوں کو غزہ کے جنوبی اور شمالی حصوں میں قائم ہونے والے "انسانی امدادی مراکز" میں بھی استعمال کیا جائے تاکہ وہاں نظم و نسق قائم رکھا جا سکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس لیے کیے جا رہے ہیں کیونکہ امریکہ اور اسرائیل، غزہ میں بین الاقوامی امن فوج کے قیام کے معاملے پر کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ اسرائیل نے ترکی سمیت بعض ممالک کی شمولیت پر بھی اعتراض کیا ہے۔

اسی دوران، سعودی چینل الحدث نے رپورٹ دی کہ یاسر ابوشباب نے کوشنر سے علیحدہ ملاقات بھی کی ہے، جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ حماس کے جنگجوؤں کو رفح کے زیرزمین سرنگوں کے ذریعے ان کے زیرِکنٹرول علاقوں میں محفوظ راستہ فراہم کریں۔

دوسری جانب، اسرائیلی ٹی وی چینل 11 کان نے تصدیق کی کہ بعض مسلح گروہوں کے نمائندوں نے امریکی افسران سے ملاقاتیں کی ہیں، تاہم مقام کی تصدیق نہیں کی گئی۔

مبصرین کے مطابق، غزہ میں امریکی سرگرمیوں کا مقصد "مقامی سیکیورٹی فورس" تشکیل دینا ہے جو انسانی امداد کی تقسیم، نظم و نسق اور بعض علاقوں کے انتظامات کو سنبھال سکے۔

رپورٹوں کے مطابق، ابوشباب کا گروہ پہلے سے ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی شاباک اور اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور رفح میں تخریب و تعمیر کے منصوبوں کی نگرانی کر رہا ہے۔

ادھر، امریکی جریدے پولیٹیکو نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی وزارت دفاع پینٹاگون اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان گردش کرنے والی خفیہ دستاویزات میں امن منصوبے پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ ان دستاویزات کے مطابق، غزہ میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے واشنگٹن کو نہ صرف وسیع اقتصادی و سیکیورٹی کردار ادا کرنا ہوگا بلکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بداعتمادی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرحلہ دوئم کے آغاز پر کئی سوالیہ نشان موجود ہیں، اور فی الحال اس منصوبے کے کامیاب ہونے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔

اس تمام صورتحال کے باوجود، امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے 20 نکاتی امن منصوبے پر عملدرآمد جاری رکھے گی اور جنگ بندی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، امریکیوں کے ان خفیہ روابط نے غزہ کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، اور ٹرمپ کا امن منصوبہ  جس کا مقصد استحکام تھا اب خود خطے میں نئے تصادم کے امکانات کو بڑھا رہا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha