11 نومبر 2025 - 20:14
مآخذ: ابنا
نیتن یاہو کے لئے غزہ کے خلاف دوبارہ وسیع جنگ چھیڑنا نا ممکن ہے

اسرائیلی امور کے ماہر فلسطینی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم نیتن یاہو کے لیے غزہ کے خلاف دوبارہ وسیع جنگ چھیڑنا اب تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ موجودہ جنگ بندی امریکہ کی براہِ راست نگرانی میں ہے۔

نیتن یاہو کے لئے غزہ کے خلاف دوبارہ وسیع جنگ چھیڑنا نا ممکن ہے

اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی امور کے ماہر فلسطینی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم نیتن یاہو کے لیے غزہ کے خلاف دوبارہ وسیع جنگ چھیڑنا اب تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ موجودہ جنگ بندی امریکہ کی براہِ راست نگرانی میں ہے اور اس کی خلاف ورزی واشنگٹن کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں۔

الاقصی ٹی وی کے مطابق ماہرین نے واضح کیا کہ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی بڑے فوجی تصادم یا تناؤ کا فیصلہ امریکی رضامندی سے مشروط ہے۔

فلسطینی تجزیہ کار عمر جعارہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں اور ان کی لاشوں کی واپسی کے بعد نیتن یاہو کے لیے جنگ کی شروعات کا دروازہ تقریباً بند ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ، جو جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی کر رہے ہیں، کسی بڑے حملے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ٹرمپ نے اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف اور جیرڈ کوشنر کو معاہدے کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے خطے میں تعینات کیا ہے۔

فلسطینی ماہر عادل شدید کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو صرف اسی وقت وسیع جنگ دوبارہ شروع کر سکتے ہیں جب خطے میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو اور امریکہ اس کی منظوری دے۔ ان کے مطابق فیصلہ صرف اسرائیلی کابینہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ واشنگٹن کا کردار بنیادی ہے۔

اس سے پہلے اسرائیلی صحافی باراک راوید نے امریکی میڈیا "اکسیوس" میں انکشاف کیا تھا کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو سخت پیغام دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے تو وہ سیاسی طور پر خود کو نقصان پہنچائیں گے۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق نیتن یاہو "امریکی صدر کے ساتھ نہایت باریک رسی پر چل رہے ہیں" اور مسلسل انحراف انہیں ہی نقصان پہنچائے گا۔

اسرائیلی چینل 11 نے رپورٹ کیا کہ ایک امریکی اہلکار نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات ترک کرے جو جنگ بندی کو سبوتاژ کر سکتے ہیں اور خطے میں ممکنہ پیش رفت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ چینل کے مطابق واشنگٹن اسرائیل پر غیرمعمولی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ غزہ کی بحالی اور جنگ بندی سے متعلق ٹرمپ کے امن منصوبے میں رکاوٹ نہ ڈالے۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کو ختم کرنے اور یرغمالیوں کی بازیابی کے نام پر غزہ پر جنگ مسلط کی تھی، مگر اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوا اور بالآخر حماس کے ساتھ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کرنا پڑا۔

حماس نے 17 مہر 1404 کو باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ فریقین کے درمیان جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ اگلے روز اسرائیلی فوج نے بھی جنگ بندی کے آغاز کی تصدیق کی اور بتایا کہ معاہدے کے تحت اسرائیلی فورسز مخصوص علاقوں میں رہیں گی جبکہ شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان آمد و رفت الرشید اسٹریٹ اور صلاح الدین روڈ کے ذریعے ممکن ہوگی۔

ٹرمپ کے امن منصوبے کا پہلا مرحلہ مصر، قطر اور ترکی کی ثالثی میں شرم الشیخ میں طے پایا اور 17 مہر 1404 سے نافذ ہوا۔ اس کے باوجود اسرائیل مختلف شقوں کے نفاذ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے اور غزہ میں بارہا خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha