بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ طٰہٰ کی آیات 99 تا 113 میں، اللہ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو یاد دلاتا ہے کہ جو کچھ پچھلے لوگوں کے قصوں سے نقل کیا جاتا ہے، محض تاریخ کا بیان نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ اور دہرائی جانے والی حقیقت ہے۔
یہ آیات بنی اسرائیل کے گوسالہ [بچھڑا] پرستی کے بعد کے واقعے کو بیان کرتی ہیں اور گہری نظر سے اس قوم کی دشمنیوں اور انحرافات کی جڑوں کو عیاں کرتی ہیں۔ ان واقعات کے دہرانے سے قرآن کا مقصد مؤمنین کو دین کے کھلے اور چھپے دشمنوں کے خلاف بیدار کرنا ہے؛ وہ دشمن جنہوں نے مختلف وسائل اور اوزاروں سے ایمان کو نشانہ بنایا ہے۔
یہود کی تاریخ میں گہری دشمنی
خدا اس حصے کے شروع میں فرماتا ہے: "كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ؛ اسی طرح ہم تمہیں پچھلی خبروں میں سے کچھ سنا دیتے ہیں"؛ یعنی ہم تمہارے لئے پچھلے لوگوں کی خبریں بیان کرتے ہیں تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔ بنی اسرائیل وہ قوم تھی جو خدا کے معجزے دیکھنے اور فرعون کے پنجے سے نجات پانے کے باوجود بار بار شرک اور گناہ کے راستے پرپلٹ کر چلی گئی۔
سامری کے بچھڑے کے واقعے میں یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ بنی اسرائیلیوں کا ایمان پیغمبر خدا کے ہوتے ہوئے اور معجزات کو دیکھتے ہوئے بھی بالکل سطحی اور مادی مفادات پر منحصر تھا۔ ان کا یہی رویہ ہی سبب بنا کہ وہ پوری تاریخ میں انبیاء (علیہم السلام) کے خلاف کھڑے ہوئے، انہیں جھٹلایا اور حتیٰ کہ کچھ انبیاء کو قتل کر ڈالا۔ بنی اسرائیل کی حق سے دشمنی نادانی کی بنا پر نہیں بلکہ ہٹ دھرمی اور دنیا پرستی سے پیدا ہوتی ہے۔
فکری انحراف سے عملی دشمنی تک
اس حصے کی آیات بتاتی ہیں کہ فکری انحراف کیونکر عملی دشمنی منتج ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل پہلے فکر میں تحریف کا شکار ہوئے؛ انہوں نے خدا کی تعلیمات کو اپنے فائدے کے بدل ڈالا اور پھر انبیاء (علیہم السلام) کے مد مقابل کھڑے ہوئے۔ ظآہر ہے کہ جب دل حق سے خالی ہو جاتا ہے تو اس کی جگہ طاقت کی خواہش اور خود غرضی اور خود پرستی، لے لیتی ہے۔ قرآن ان آیات میں خبردار کرتا ہے کہ دین کے دشمن ہمیشہ دین داری اور علم کا نقاب اوڑھ کر سامنے آتے ہیں؛ جیسے سامری ایمان کے بھیس میں، ایک بچھڑا بنا کر، لوگوں کو دھوکہ دے دیتا ہے۔
یہ طریقہ تاریخ میں مسلسل دہرایا جاتا رہا ہے؛ حق کے دشمن ہمیشہ فکری اور ثقافتی انحراف کے ذریعے فکری اور اعتقادی دراندازی کرتے اور داخل ہوتے ہیں نہ کہ صرف جنگ اور تلوار کے ذریعے۔
قرآن دشمن کے مقابلے میں "آگاہی کا ہتھیار"
ان آیات کے درمیان ہی، اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو یاددہانی کراتا ہے کہ کہ دشمنوں اور ان کی ہٹ دھرمیوں کے مقابلے میں، انہیں صرف وحی پر بھروسہ کرنا ہوگا: "فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ؛ (پس آپ ثابت قدم رہیں جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے)" (سورہ ہود، آیت 112) یعنی اے پیغمبر، دشمنوں کے دباؤ اور دھوکے کے مقابلے میں جم کر رہیں اور ان کی پیروی نہ کریں۔
درحقیقت، قرآنی 'دشمن شناسی' صرف دشمن کا چہرہ پہچاننے تک محدود نہیں، بلکہ مقابلے کا راستہ بھی دکھاتی ہے؛ حق کے راستے پر ثابت قدمی اور قرآن کی طرف مسلسل رجوع۔ کیونکہ قرآن خود ہی 'حق و باطل کا واضح ترین معیار' ہے اور جو کوئی اس سے دور ہو جاتا ہے، اس نے دشمن کے نفوذ اور دراندازی کے لئے میدان ہموار کر دیا ہے۔
آخرت کو بھلانا، انحرافات کی جڑ
اس حصے کی آخری آیات میں، خدا بنی اسرائیل کی گمراہی کی ایک بنیادی وجہ کی طرف اشارہ کرتا ہے: آخرت کو بھلانا۔ وہ دنیا سے لگاؤ رکھنے لگے اور خدا کی طرف کے اجر و انعام اور سزا و عذاب سے غافل ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا؛ (سورہ طہ، آیت 131۔) اور نہ ڈالو اپنی نگاہ اس پر جس سے ہم نے ان میں سے بہت سوں کو بہرہ مند کیا ہے دنیاوی زندگی کی زیب و زینت سے؛" یعنی دنیا کی چمک دمک پر نظر نہ ڈالیں۔ حق کے دشمن ہمیشہ مادی اور موہَک چیزوں کے ذریعے انسان کو اصل مقصد سے روکتے ہیں۔ بنی اسرائیل کا بھی یہی حال ہؤا؛ انہوں نے دین کو طاقت کا ذریعہ بنا لیا اور اطاعت کے بجائے تحریف کرنے لگے۔

تاریخ کا اعادہ نئے روپ میں
اگرچہ یہ آیات قوم بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، لیکن ان کا پیغام وقت و مقام (Time and space) سے بالاتر ہے۔ حق سے دشمنی کی وہی روح آج بھی نئے روپ میں موجود ہے۔ اسلام کے دشمن، پچھلے لوگوں کی طرح، ثقافت، تشہیر اور سیاست کے ذرائع استعمال کرتے ہیں تاکہ حقائق کو مسخ کریں اور مؤمنوں کو گمراہ کریں۔
جس طرح سامری نے سونے کا بچھڑا بنا کر لوگوں کا ایمان چھین لیا، آج بھی جدید بت اور دل فریب تشہیر، ذہنوں کو خدا سے دور کر رہی ہے۔
دشمن کی پہچان، حق کے راستے پر قائم رہنے کی شرط
آخر میں، قرآن، پیغمبر کی رسالت اور وحی کے جاوِدانی ہونے پر زور دے کر مؤمنوں کو بیداری اور بصیرت کی دعوت دیتا ہے۔ یہود اور بنی اسرائیل کی دشمنی محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے، بلکہ ان تمام لوگوں کو پہچاننے کا نمونہ ہے جو حق کے مقابلے میں آ کھڑے ہوتے ہیں۔
وہ ظاہری طور پر اہل کتاب اور صاحبان علم ہیں، لیکن حقیقت میں حق و حقیقت کے دشمن ہیں۔ نجات کا راستہ قرآن کی طرف واپسی، آخرت کو یاد رکھنا اور ایمان پر ثابت قدم رہنا ہے؛ کیونکہ دشمن ہمیشہ گھات میں ہے، لیکن اللہ کا اٹل وعدہ ہے کہ "حق" آخرکار فاتح ہوگا۔
قرآن کریم کے صفحہ 319 پر ان آیات کی تلاوت کیجئے اور سنیے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مہدی احمدی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ