اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی اخبار ہاآرتص نے فلسطینی اور عرب ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے سے متعلق قاہرہ میں جاری مذاکرات مکمل طور پر بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نوارِ غزہ سے مکمل انخلا پر آمادہ نہیں جبکہ حماس واضح ضمانتوں کے بغیر اپنے ہتھیاروں کی حوالگی پر تیار نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ نے بھی اسرائیل پر کوئی مؤثر دباؤ نہیں ڈالا جس سے مذاکراتی deadlock مزید گہرا ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی فورس، جسے غزہ میں تعینات کیا جانا ہے، تاحال اپنے مینڈیٹ اور اختیارات کے بارے میں کسی وضاحت کی منتظر ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ کی ازسرنو تعمیر بھی شدید ابہام کا شکار ہے۔ نہ ملبہ ہٹانے کا کام شروع ہو سکا ہے اور نہ ہی ہزاروں شہدا کی لاشیں ملبے سے نکالی گئی ہیں۔ شدید بارشوں اور محدود انسانی امداد کے باعث غزہ کے مکین نہایت خراب انسانی صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ادھر نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ واشنگٹن نے غزہ کے ان علاقوں میں، جو آتش بس کے بعد اسرائیلی قبضے میں ہیں، عارضی رہائشی کمپلیکس قائم کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ فوری طور پر مشرقی غزہ میں کئی "محفوظ متبادل رہائشی بستیوں” کی تعمیر چاہتی ہے، ہر کمپلیکس میں تقریباً 20 سے 25 ہزار افراد کو بسایا جائے گا، جن میں طبی مراکز اور اسکول بھی شامل ہوں گے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کو فوری ریلیف مل سکے گا، تاہم اس سے غزہ کی عملی تقسیم کے مستقل ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ دو ملین سے زائد فلسطینی اب بھی حماس کے زیرانتظام علاقوں میں محصور ہیں جہاں تعمیر نو پر پابندی برقرار ہے۔
اسرائیلی تجزیہ کار رون بن یشای نے لکھا ہے کہ امریکہ کا یہ منصوبہ غزہ کے مکینوں کو اسرائیلی کنٹرول والے علاقوں میں منتقل کرنے کی کوشش ہے، تاکہ حماس کو مزید تنہا اور محصور کیا جا سکے، مگر غزہ کے عوام اپنی سرزمین کے ساتھ مضبوط وابستگی رکھتے ہیں اور ملبوں میں رہنے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔
اسی دوران یدیعوت آحارنوت کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اس بات پر بھی پریشان ہے کہ امریکہ غزہ میں بین الاقوامی فورس کے لیے ترکی کے فوجیوں کو شامل کرنے پر زور دے رہا ہے، کیونکہ کئی ممالک اپنے فوجی بھیجنے سے انکاری ہیں۔
اخبار کے مطابق تل ابیب اس وقت تک معاہدے کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھنے پر تیار نہیں جب تک غزہ میں موجود اپنے دو باقی ماندہ فوجیوں کی لاشیں وصول نہ کر لے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے اعلان کے بعد متعدد بار اس کی خلاف ورزی کی ہے جس پر عالمی سطح پر شدید ردعمل اور مذمت سامنے آئی ہے۔
آپ کا تبصرہ