اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق،
یہودی ربیوں کی اکثر باتیں صہیونی حکمرانوں کے عزائم کے موافق ہوتی ہیں اور جس
طرح کے ان کے سیکولر حکمران چاہتے ہیں یہ بھی اسی رو میں موقف اپناتے ہیں اور بہت
جھوٹ بولتے ہیں لیکن ان کی باتوں میں آٹے میں نمک کے برابر حقیقت کا قائل ہونا
صحافی انصاف کا تقاضا ہے؛ صہیونیت کی نابودی ان ہی مختصر سے حقائق میں سے ایک ہے
جس کے بارے میں ایک سے زیادہ یہودی ربیوں نے بھی اور حالات و واقعات کے ماہر تجزیہ
کاروں نے بھی پیشگوئیاں کی ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ صہیونیت مخالف ربی بھی ہیں جو
فلسطین کے حامی ہیں اور وہ صہیونیت کو یہودیت کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور اپنے
خدشات کے لئے دلائل بھی پیش کرتے ہیں جو قابل غور ہیں۔ ذیل کے متن میں ان صہیونیت
کے حامی اور مخالف ربیوں کے خیالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
واضح رہے کہ کچھ صہیونی ربیوں کی مخالفت کا سبب یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ
صہیونی حکمران صہیونی اصولوں سے انحراف کر رہے ہیں اور یہ اس غاضب ریاست کے لئے
خطرناک ہے۔ جہاں تک صہیونیت مخالف یہودیوں کا تعلق ہے تو وہ یقینا اپنے دین اور
عقیدے کے پابند ہیں چنانچہ ان کا موقف مسلمانوں کے لئے جذباتیت کا سبب نہیں بننا
چاہئے، اور اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہئے کہ صہیونیت مخالف یہودی ربی اپنے مذہب
کے بچاؤ میں مصروف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ صہیونیوں کے کرتوتوں کی وجہ سے یہودیت
بدنام ہو رہی ہے۔ لہذا ان کی مخالفت کا مقصد اسلام سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ
یہودیت کا تحفظ ہے۔
عووادیہ یوسف (Ovadia Yosef)
صہیونیوں کا بڑا ربی اور اسرائیل کی "شاس" نامی ارتھوڈاکس یہودی
جماعت ـ جو یہودیوں کی حریدی شاخ (Haredi Judaism) کا روحانی پیشوا عووادیہ یوسف (Ovadia Yosef)، ـ
جو 24 ستمبر 1920ع کو عراق میں پیدا ہؤا تھا ـ 11 سال قبل اور (7 اکتوبر 2013ع کو) چل بسا۔ وہ ایک انتہائی
آشفتہ حال اور متنازعہ شخص اور شدت پسند نسل پرست یہودی ربی تھا جو اپنے برتاؤ اور
ایران اور عربوں کے بارے میں بھی اور اپنے صہیونی حکام کے بارے میں بھی مختلف
النوع اظہار خیالات کی وجہ سے ہمیشہ ذرائع ابلاغ میں دکھائی دیتا تھا اور اس کی
باتیں شہ سرخیاں بنا کرتی تھیں۔
"عووادیہ یوسف" غیر یہودیوں کو جینٹائل یا گوئے [1] کہہ کر
پکارتا تھا اس عبارت کو عام طور پر "غیر یہودی" کا مترادف قرار دیا گیا
ہے مگر غیر یہودی لوگ اس کو ایک توہین آمیز عنوان قرار دیتے ہیں۔
اس نے خود ہی لفظ جینٹائل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے: "خدا نے غیر
یہودیوں کو صرف اور صرف اس لئے خلق کیا ہے کہ وہ یہودیوں کی خدمت کریں۔ جینٹائل
لوگ کس درد کی دوا ہیں؟ وہ کام کرتے ہیں، ہل چلاتے ہیں، بوتے ہیں، کاٹتے ہیں اور
ہم یہودی رئیس (افندی) کی طرح بیٹھتے ہیں اور ان کے بوئے کاٹے کے مزے لیتے ہیں،
یہی وہ بات ہے جس کے لئے جینٹائل لوگوں کی خلقت ہوئی ہے"۔
اگرچہ عوادیہ یوسف فلسطینیوں کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات اور دو ریاستی حل
کا حامی دکھاتا تھا مگر عربوں کے بارے میں اس کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ
بولتا تھا۔ وہ اپنے پیروکاروں کو تلقین کرتا تھا کہ "عربوں کے ساتھ کسی صورت
میں بھی معاف کرنے والے شخص اور بخشنے والے
شخص کی طرح برتاؤ نہ کرنا، انہیں میزائلوں اور بموں سے نیست و نابود کرنا چاہئے
کیونکہ وہ شیطان اور ملعون ہیں"۔
عووادیہ نے اس سے پیشتر عربوں کو "سانپ" کا لقب دیا تھا۔
"عووادیہ یوسف" نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل، صہیونی ریاست کی طرف
سے ایران پر حملے کی باتیں سامنے آنے پر ایرانیوں کے خلاف شدید موقف اپنائے رکھا۔
ایک مرتبہ اس نے "سبت (سینیچر) کی دعا کے موقع پر اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی
تھی کہ وہ "فارسی [ایرانی] دشمن کی نابودی" کے لئے دعا کریں۔ اس نے کہا
تھا کہ یہودیوں کے نئے سال کی تقریبات میں ایران کا نام "یہودی قوم کے
دشمن" کے عنوان سے ثبت ہونا چاہئے۔
اس کا کہنا تھا کہ "جس وقت ہم اپنی دعاؤں میں اپنے دشمنوں کی تباہی و
بربادی چاہتے ہیں، تو ہمیں ایران اور دوسرے دشمنوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے، تاکہ
خدا انہیں تباہ و برباد کرے"۔
ربی میتیاہو
گلیزرسن (Rabbi
Matityahu Glazerson)
صہیونی اخبار یروشلم پوسٹ کی ویب گاہ کے مطابق، 82 سالہ ربی میتیاہو گلیزرسن
جو 30 کتابوں کا مصنف اور "توریت کے خفیہ رموز (Secret codes) کی بنیاد پر پیشگوئیوں" کے حوالے سے مشہور ہے، ایک ویڈیو
کلپ میں دعویٰ کرتا ہے کہ توریت کے خفیہ رموز کی رمزکشائی (Decoding) سے
معلوم ہوتا ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کرے گا اور اس کو تباہ و برباد کرے گا۔
گلیزرس کا دعویٰ ہے کہ اس کی اس پیشگوئی کی بنیاد وہ رمزیہ (اور coded)
عبارات ہیں جو یہودیوں کی مقدس کتاب توریت میں موجود ہیں، اور کچھ افراد کے خیال
میں یہ عبارتیں خدا کے بندوں کے لئے خفیہ پیغامات پر مشتمل ہیں۔ گلیزرس آن لائن
ہونے والی ویڈیو میں کہتا ہے: "میں نے توریت کی کچھ آیتوں کے رموز کو ایک
ساتھ رکھا تو مجھے "ایران ٹیک آف" (Iran Takeoff) (ایران حملہ کرے گا)۔ [2] اس
عبارت کو میں نے توریت کی آیات سے استخراج کیا"۔ وہ اس واقعے کی تاریخ کے
بارے میں بھی کہتا ہے کہ یہ واقعہ یہودی سال 5783 (2023ع) کو رونما ہوگا۔
اس یہودی ربی کا دعویٰ ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کرے گا اور اگر اسرائیل
اپنی موجود روش کو جاری رکھے تو اس کی بربادی تقریبا یقینی ہے۔
ربی گلیزرسن مزید کہتا ہے کہ "لگتا ہے کہ اسرائیل میں جاری واقعات و
حادثات اس ریاست کی بربادی کی طرف اشارہ ہیں؛ بدقسمتی سے آج ان افراد کو دیکھتے
ہیں اور جانتے ہیں کہ یائیر لاپید (Yair Lapid) اور آویگدور لیبرمین (Avigdor Lieberman)
(یعنی "بلو وائٹ" اپوزیشن کے سرغنے) اور اسرائیل کا وزیر جنگ یوآف
گالانت (Yoav Gallant) ـ جو ان دنوں خود بھی نیتن یاہو کا شدید دشمن ہے ـ کے تمام تر
اقدامات توریت کے خلاف ہیں، لیکن کچھ بھی معلوم نہیں ہے"۔
ربی گلیزرسن کے کہنے کے مطابق، "توبہ ہی اسرائیل کو ایران کے حملے سے بچا
سکتی ہے"۔
گلیزرس توریت کی پیشگوئیوں پر مبنی مزید رمزیہ عبارات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن
میں "توبہ" اور مسیحؑ کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور کہتا ہے کہ "اگر
اسرائیل توبہ کرے، اور توریت میں آنے والے تمام احکامات کی رعایت کرے، تو خدا کی
مقدس کتاب کی رمزیہ عبارت کی رو سے دوسرا "وعدہ" عملی جامہ پہنے گا اور
اسرائیل کو نجات ملے گی"۔
ربی ڈيوڈ فیلڈمین (Rabbi David
Feldman)
نیویارک کے رہائشی یہودی اور صہیونیت مخالف تحریک نیٹوری کارٹا (Neturei Karta) کے
رکن ربی ڈیوڈ فیلڈمین کا کہنا ہے کہ صہیونیت در حقیقت ایک المیہ ہے اور مذہبی
یہودیوں پر بالکل عیاں ہے کہ جو المیہ یہودیوں کے لئے دوسری عالمی جنگ میں رونما
ہؤا، اس کا سبب صہیونت کا فتنہ تھا۔
صہیونیت کی ایک چال یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جواز اور مشروعیت (Legitimacy) تلاش کرنے کے لئے جتاتی ہے کہ وہ تمام تر یہودیوں کی
ترجمانی کر رہی ہے، اسی بنا پر جو بھی ان کی مخالفت کرے گا اس پر بے دھڑک
"یہود دشمنی" (Antisemitism) کا الزام لگا دیتی ہے۔ مذہبی
یہودی ان دنوں صہیونی ریاست کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں
جانے دیتے۔
ڈیوڈ فیلڈمین نے دسمبر 2023ع میں استنبول میں "یورپ فلسطین کے لئے"
کے عنوان سے منعقدہ اجلاس کے موقع پر ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا:
یہودی، صہیونیت کے اختراع سے پہلے، فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ امن و سکون سے
زندگی بسر کر رہے تھے۔
بہت سے یہودی پوری دنیا میں، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم کے خلاف ہیں۔
یہودیت اور صہیونیت کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے، صہیونیت ایک سیاسی تحریک ہے
جو قوم پرستی کے رجحانات پر استوار ہے، اور یہ یہودیت اور دین یہود کی ترجمانی
نہيں کرتی۔ بدقسمتی سے، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں ایک ہیں اور تمام تر یہودی
اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔
اسرائیل کا وجود دین یہود سے متصادم ہے؛ چنانچہ یہودی اسرائیلی ریاست کی
موجودگی کے خلاف ہیں، یہاں تک کہ دنیا میں لاکھوں یہودی بستے ہیں جو صہیونیت کے
خلاف ہیں۔
نیویارک میں صہیونیت کے خلاف کام کرنے والی ایک طاقتور یہودی برادری پائی جاتی
ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ فلسطین میں ہؤا ہے، غلط ہے، یہ تمام جرائم، قتل عام کے
واقعات، چوریاں، قبضہ اور غصب جیسے مظالم ایک قوم پر ڈھائے گئے ہیں۔
غزہ پٹی پر صہیونیوں کی جارحیت انتہائی وحشیانہ ہے، البتہ یہ پہلی نسل کُشی
نہیں ہے جس کا آج ہمیں سرزمین فلسطین میں مشاہدہ کر رہے ہیں، بلکہ فلسطین پر قبضہ
ابتداء ہی سے غلط تھا اور یہ ایک دائمی جرم ہے۔
غاصب صہیونی ریاست کے اقدامات اور کاروائیاں نہ صرف بین الاقوامی قوانین
کی رو سے غلط ہیں بلکہ یہودیت کی نظر میں
بھی یہ جرائم ہیں اور توریت نے ان تمام جرائم سے باز رکھا ہے۔
ان جرائم کا فوری خاتمہ ہونا چاہئے، اگر ہم اس غصب اور قبضے کا خاتمہ کریں تو
مجھے امید ہے کہ ایک بار پھر ماضی کی طرح امن و سکون قائم ہوجائے گا تاہم مجھے
امید ہے کہ یہ عمل پرامن انداز سے انجام کو پہنچے اور کسی کو بھی نقصان نہ پہنچے!
ربی رونین شاؤلوف (Ronen Shaulov)
ربی رونین شاؤلوف کا دعویٰ ہے کہ "سب سے بڑی جنگ ایران اور اسرائیل کے
مابین ہوگی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران نے تمام محاذوں کا انتظام سنبھال رکھا
ہے: شام (صہیونی-مغربی-ترکی قبضے سے قبل) حزب اللہ، غزہ نیز اردن کی سرحدیں۔ ہم
ایک جال میں پھنسے ہوئے ہیں، چنانچہ اگر کسی جگہ سے بھاگنا چاہیں، تو ہمارے لئے
کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم اس دور میں نہیں ہیں کہ کوئی معجزہ رونما ہوجائے اور سمندر
12 حصوں میں تقسیم ہو جائے (حضرت موسٰیؑ کی دعا سے بحیرہ احمر میں بنی اسرائیل کے
لئے 12 راستے بننے کی طرف اشارہ)۔ تو ہمیں صرف خدا ہی سے مدد مانگنے کی ضرورت
ہے"۔
یہ یہودی ربی بھی ایک ویڈیو کلپ میں ـ گلیزرسن کے لب و لہجے میں ـ توریت کی
کچھ آیتوں کے رموز کو ساتھ رکھتا ہے اور ان سے "ایران ٹیک آف" (Iran Takeoff) (ایران حملہ کرے گا) کی عبارت استخراج کرتا ہے۔
اس یہودی ربی نے کہا تھا کہ ایران سنہ 2020ع اور 2024ع کے درمیان اسرائیل پر
حملہ کرے گا اور اگر اسرائیل اسی ڈگر پر چلتا رہا ہے اس کی نابودی یقینی ہے۔
حریدی ربی زوی
فریڈمین (Rabbi Zvi Friedman)
فریڈمین ـ جس کو صہیونی ریاست کے سرغنے انتہاپسند ربی کا لقب بھی دیتے ہیں ـ
کہتا ہے: "موت، اسرائیلی فوج میں خدمت کرنے سے بہتر ہے"۔
با ادامه فشارها و زمینگیر شدن ارتش رژیم صهیونیستی در غزه، «زوی فریدمن»،
یهودی گفته است که مرگ بهتر از خدمت در ارتش اسراییل است.طبق نظرسنجیهای شبکههای
اصلی اسرائیلی، اکثریت اسرائیلیها خواستار برگزاری انتخابات زود هنگام هستند.در
صورتی که اکنون انتخابات برگزار شود، بنی گانتز نتانیاهو را شکست خواهد داد.
«زوی فریدمن»، می گوید که از نظر اعتقادات یهودی، ۱۰۰٪ مطمئن هستم که رژیم اسرائیل پایان خواهد یافت. این از نظر
دینی است. ما منتظر آن روز هستیم و برای آن روز دعا میکنیم. مطمئنم این روز خیلی
زود فرا خواهد رسید.
ربی یسروئیل داوید وائز (Yisroel Dovid
Weiss)
ربی یسروئیل داوید وائز، صہیونی ریاست کے خاتمے کے بارے میں کہتا ہے: "ہم
ہر اس کے کام کے خلاف ہیں جو صہیونی ریاست (اسرائیل) انجام دیتی ہے۔ اصولا اس کے
وجود کے خلاف ہيں، صہیونی اور اسرائیل کے حامی دین خدا سے خارج ہیں۔ انہوں نے
فلسطین پر غیر قانونی اور اللہ کے مرضی کے خلاف، قبضہ کیا ہے اور غزہ اور فلسطین
کے باشندوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ہم پوری دنیا میں فلسطینیوں کی
حمایت میں مظاہرے کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں کیونکہ ہم کسی صورت میں بھی اس قبضے
کو تسلیم نہیں کرتے۔
یہودیت ایک 3000 سالہ مذہب ہے، جسے خدا نے نازل کیا ہے جبکہ صہیونیت بدعت
گذاروں کی تحریک ہے۔ یہ لوگ دین یہود کے ترجمان نہیں ہیں، لیکن یہ دعویٰ کرنے کی
کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ خدا کے نام ہے۔ لیکن ہم دنیا کے یہودی
زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ جھوٹے اور بہتان تراش ہیں، وہ شیطان ہیں۔ ہم ان سب لوگوں
کے لئے روتے ہیں جو ان کے ہاتھوں سے مصائب میں مبتلا ہیں۔
اسماعیل ہنیہ امن کا پیغام لے کر قطر سے آئے تاکہ جو کچھ بھی کر سکیں، فلسطینی
عوام کے لئے کر گذریں، اور چونکہ وہ فلسطین کی آزادی کے لئے راستہ تلاش کر رہے
تھے، اسی لئے صہیونیوں نے ان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ اور یہ
واقعہ پوری دنیا کے یہودیوں کے لئے صدمے اور غم کا سبب بنا ہے۔
داوید وائز نے 3 اگست 2024ع کو ایرانی ٹی وی کے پروگرام "بہ افقِ
فلسطین" میں بات چیت کرتے ہوئے کہا:
آج آیت اللہ خامنہ ای واضح طور پر فرماتے ہيں کہ یہودیت اور صہیونیت دو الگ
الگ مسئلے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ اسی حقیقت کو عالمی سطح پر سب کا نعرہ بننا
چاہئے۔
صہیونیت مذہب کے بہانے سے اور "یہود دشمنی" (Antisemitism) کے
ہتھیار سے فلسطینیوں کا قتل عام کرتی ہے اور ان کی سرزمین پر قابض ہو چکی ہے۔
میں ایک تاریخی تصویر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو صہیونی ریاست کے قیام سے
تعلق رکھتی ہے اور اس تصویر میں ایک شخص کا سر ڈھانپا ہؤا نہیں ہے جو صہیونیت کے
غیر دینی اور غیر مذہبی ہونے کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ اور اس تصویر سے ثابت ہے کہ
یہ لوگ حقیقی یہودی نہیں ہیں کیونکہ ہماری دینی تعلیمات کی رو سے، سر کا ڈھانپا
جانا فرائض میں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کے قیام میں حتیٰ ایک بھی
مذہبی راہنما موجود نہیں تھا اور صہیونیت نے یہودیت کو قوم پرستی سے منجرف کرکے
ایک خودغرضانہ مسئلے میں بدل ڈالا ہے۔
https://www.yjc.ir/fa/news/8748824/استناد-خاخام-یهودی-به-یک-عکس-تاریخی-درباره-غیر-دینی-بودن-تشکیل-رژیم-صهیونیستی-فیلم
غزہ میں ہونے والا کام شیطان کا کام ہے
وائز نے کہا:
جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یہ بلا واسطہ طور پر شیطان کا کام ہے۔ ہمارے پاس
صرف ایک ہی نکبہ [3] نہیں ہے
بلکہ نکبتیں ہیں؛ پہلی بار امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ
"صہیونی ریاست ایک شیطانی ریاست ہے"۔
ربی یوسف روزنبرگ (Rabbi Yosef Rosenberg)
صدر ایران کی شہادت پر تعزیت کے لئے یہودی برادری کے نمائندے کی ایران آمد
ربی یوسف روزنبرگ نے بھی 3 اگست 2024ع کو ایرانی ٹی وی کے پروگرام "بہ
افقِ فلسطین" میں بات چیت کرتے ہوئے کہا:
ایران میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایران کے صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت
کے بعد، ہم سے کہا گیا کہ یہودی سوسائٹی کا ایک نمائندہ ایران کے دورے پر آئے تاکہ
وہ ایران اور اس کی حکومت سے اپنی یکجہتی کا اظہار کر سکے۔ یقینی امر ہے کہ یہودی
کبھی بھی ایران کو دہشت گرد ملک نہيں سمجھتے اور انہیں یقین ہے کہ ایران کی یہودی
برادری انتہائی امن و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور حکومت ان کی حمایت کرتی
ہے۔
یہودی ریاست کا قیام غلط اور اسرائیل کی تائید و حمایت گناہ ہے
یہودی دینی تعلیمات کی رو سے "یہودی ریاست" کا قیام بنیادی طور پر
غلط ہے۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو 2000 سال قبل یہودیوں کے لئے رقم ہؤا ہے، کہ وہ اپنی
سرزمین سے نکل جائیں۔ ہماری تعلیمات کی رو سے، ہمیں حتیٰ کہ بے آب و گیاہ صحراؤں
میں بھی حکومت قائم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، چہ جائے کہ ہم دوسروں کی سرزمین کو
چوری کریں اور اس سرزمین کے مقامی عوام کو قتل کر دیں۔
یورپی یہودی فلسطینیوں کی پناہ میں آیا کرتے تھے
ہمارے باپ دادا نے ہمارے لئے بیان کیا ہے کہ جس وقت یورپ میں یہودیوں کو
بدسلوکیوں کا سامنا تھا، تو فلسطینی انہیں پناہ دیتے تھے اور ان کے ساتھ شفقت سے
پیش آتے تھے، چنانچہ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ان کے ساتھ شفقت اور مہربانی کے ساتھ
پیش آئیں۔ لہذا، حتیٰ کہ اسرائیل کی صہیونی ریاست کا وجود تک تسلیم کرنا، گناہ ہے۔
اسرائیل کی رسوائی، جان کی قربانی تک
ہمارے بڑے ربی کا خیال ہے کہ یہودی علماء پر لازم ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست کی
حقیقت کو دنیا والوں کے سامنے آشکار کر دیں، تاکہ صہیونیوں کی قبضہ گری یہودیوں کے
کھاتے میں نہ آنے پائے، خواہ یہ حقائق عیاں کرنے کی راہ میں جان کی قربانی کیوں نہ
دینا پڑے۔
کچھ رہبر انقلاب اسلامی کے بارے میں، یہودی ربی کے زبانی
صہیونیت مخالف ربی یوسف روزنبرگ نے مزید کہا:
امریکہ ہمیشہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ "ایران مت جاؤ، مارے جاؤگے"،
میں بھی ڈر گیا تھا، یہاں تک کہ جب ہوائی اڈے میں داخل ہؤا تو یہی خوف میرے دل میں
تھا، لیکن ہمیں ایرانیوں کی طرف سے والہانہ استقبال کا سامنا کرنا پڑا اور ہم نے
رفتہ رفتہ ایران کے قائد اور عوام کو پہچان لیا"۔
ہم نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) اور آیت اللہ
خامنہ ای کی فکر کیا ہے، وہ دنیا بھر کے تمام مظلوموں کی خیر و خوبی چاہتے ہیں اور
یہ دیانت دار اور ایماندار راہنماؤں کی خصوصیت ہے۔
شہید وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین عبداللہیان نے ربی یوسف روزنبرگ سے کیا کہا تھا؟
یوسف روزنبرگ کہتے ہیں:
میں نے ایک بار شہید امیرعبداللہیان سے پوچھا: "آپ اسرائیل کو تسلیم کیوں
نہیں کرتے؟" تو انھوں نے کہا: "آپ یہ بات فلسطینی عوام سے پوچھ
لیں"۔
ہم نے بھی دنیا والوں کو یہ شفاف پیغام پہنچایا ہے کہ ہم صہیونیت کے خلاف
جدوجہد کرتے ہیں اور انہيں اسرائیل اور یہودیت کے درمیان فرق کرنا چاہئے، اور وہی
موقف اپنائیں جو اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تألیف: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ لفظ "Gentile": بُت پرست، مُشرک،
کافر، غیر شخص، غیر یہودی؛ جسے عبرانی میں گوئے (גוי) کہا جاتا ہے اور اس کی جمع گوئیم (גוים) کہا جاتا ہے۔
[2]۔ سنہ 2023ع میں
صہیونی ریاست پر حملہ نہیں کیا۔
[3]۔ نکبہ یا نکبت یا
النکبہ، The Nakba ('the catastrophe') the ethnic cleansing
of Palestinian Arabs۔۔۔ سنہ 1948ء فلسطینی
قوم کا نسلی صفایا اور جبری نقل مکانی، کو نكبة یا نكبت (یعنی المیہ، آفت، تباہی،
مصیبت) بھی کہتے ہیں یہ وہ واقعہ ہے جب برطانیہ اور امریکہ نیز نو وارد یہودیوں نے
سات لاکھ سے زائد فلسطینی عربوں یعنی
فلسطینی عربوں کی تقریباً نصف آبادی کو گھروں سے بے دخل کرکے نقل مکانی پر مجبور
کیا۔ 400 سے 600 فلسطینی بستیوں اور دیہی علاقوں کو لوٹا گیا اور تباہ کیا گیا۔
فلسطینی شہر تقریباً مکمل طور پر ختم کر دیئے گئے تھے- یہ اصطلاح "نکبہ"
فلسطینیوں کو متاثر کرنے والے دسمبر 1947 سے جنوری 1949 کے درمیانی واقعات کی جانب
بھی اشارہ کرتا ہے۔
