اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ایک ایسے شخص کے طور پر، جو ذاتی اور سیاسی طور پر اپنی شناخت ایک "اسلام پسند" کے طور پر کراتے ہیں، اردوان فلسطین اور قدس شریف کے مسئلے کو اسلامی دنیا پر اثر انداز ہونے کے ایک آلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کی سیاسی شناخت کا حصہ ہے۔


اسلامی جمہوریہ کے اس موقف کی حقانیت ـ کہ فلسطین کی آزادی پورے خطے کو عبرانی-مغربی محاذ کے تکبر، غنڈہ گردی اور اس کے جبر کی زنجیر سے پورے علاقے کی نجات کی کنجی ہے ـ دن کی روشنی میں دوحہ پر صہیونی بمباری اور شام میں 'ترک-اسرائیل حمایت سے قائم شدہ کٹھ پتلی حکومت!' کی عملداری اور لبنان پر روزانہ صہیونی حملوں کی بنا پر، بالکل ثابت ہو چکی ہے۔ یہ موقف ناقابل سمجھوتہ ہے اور طے شدہ اور نہ بدلنے والا ہے۔ فلسطین کے لئے ایران کی حمایت اسلامی جمہوریہ ایران کے وجودی تشخص کا حصہ ہے۔
دوسری طرف اردوان کی پوزیشن ایک لچکدار حکمت عملی ہے جو ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ یہ موقف مسلسل بدلتا اور غیر متوقع ہے۔ فلسطین کے لئے ان کی حمایت اردوان کی حکومت کے اہداف کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔


نتیجہ:
فلسطین کی حمایت میں اردوان کے موقف کو "بظاہر سنجیدہ لیکن مشروط" کہا جا سکتا ہے۔ یہ موقف وہاں تک سنجیدہ ہے جہاں اس سے ترکیہ کے مفادات (معیشت، سلامتی، علاقائی قیادت) کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچے (یعنی انقرہ اس کی معمولی قیمت بھی ادا نہیں کرتا، بھاری قیمت تو درکنار)۔ ایران کے مقابلے میں، جس کا موقف "بالکل سنجیدہ اور نظریاتی" ہے، اردوان کا موقف ایک حکمت عملی اور منظم لڑائی ہے، نظریاتی "جہاد" نہیں۔ اس لئے حتمی تجزیے میں اسے ایران کے موقف کی طرح گہرا، لازوال اور غیر متزلزل نہیں سمجھا جا سکتا۔
مضمون کے آغاز کی طرف لوٹتے ہوئے، اور غزہ واپسی کی "بھاری قیمت" کے بارے میں ترک صدر کی گفتگو کے بارے میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ صہیونی ریاست اور فلسطینی کاز کے سلسلے میں اردوان حکومت کی کارکردگی کا مجموعی توازن مقبوضہ علاقوں پر حکمرانی کرنے والی مافیا کو کلیدی اہداف فراہم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔ ترک حکومت نے، جائز شامی حکومت کی کایا پلٹ میں اپنے بنیادی کردار کے ساتھ، ایک منحوس اور کٹھ پتلی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی (جو کہ عام طور پر چند ہزار دہشت گردوں کی مالی، لاجسٹک اور انقرہ کی طرف کی مسلح حمایت سے زیادہ کچھ نہیں ہے)۔ ایسی حکومت کا وجود، جو تل ابیب پر حکمرانی کرنے والی مافیا حکومت کی جارحیت اور انتہا پسندی کے خلاف غیر فعال اور خالصتاً فرمانبردار ہے، محور مقاومت کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا اور نیتن یاہو اور اس کے شراکت داروں کے لئے ایک عظیم تحفہ تھا [جوجناب اردوان نے فراہم کیا]۔
صہیونی ریاست اور اس کے بین الاقوامی اور علاقائی شراکت داروں کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران پر مسلط کردہ 12 روزہ جنگ کے دوران، ایرانی سرزمین کی خلاف ورزی میں ترکیہ کی فضائی حدود اور اس کی سرزمین پر موجود اڈوں کے کردار کے بارے میں متعدد رپورٹیں آتی رہی ہیں اور آتی رہتی ہیں۔ لہٰذا، غزہ میں جنگ بندی کے قیام کے حوالے سے اردوان کے بیانات کو جذبات انگیزی اور صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی موقع پرستانہ کوشش کے سوا کچھ نہیں سمجھا جا سکتا۔
اختتام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ