اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق،حماس نے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد غزہ کے کئی علاقوں پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے لیے اپنے تقریباً سات ہزار اہلکاروں کو واپس طلب کرلیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق تنظیم نے فوجی پس منظر رکھنے والے پانچ نئے گورنر بھی تعینات کیے ہیں جن میں سے بعض حماس کے عسکری وِنگ کے سابق بریگیڈ کمانڈر رہ چکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق جنگجوؤں کو واپسی کا حکم فون کالز اور پیغامات کے ذریعے دیا گیا جن میں کہا گیا ہے کہ یہ قدم "قومی اور مذہبی فریضے کے تحت” اٹھایا جا رہا ہے تاکہ غزہ کو "غداروں اور اسرائیل کے ہمنواؤں” سے پاک کیا جا سکے۔ اہلکاروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اپنی مقررہ جگہوں پر سرکاری کوڈ کے ساتھ رپورٹ کریں۔
عینی شاہدین کے مطابق حماس کے مسلح اہلکار مختلف علاقوں میں تعینات ہو چکے ہیں، کچھ سادہ لباس میں جبکہ کچھ نیلی پولیس وردی میں دکھائی دے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق حماس کے یہ اقدامات غیر متوقع نہیں، کیونکہ جنگ کے اختتام کے بعد یہ ایک متنازع سوال بن چکا ہے کہ غزہ پر حکومت کس کے پاس ہوگی۔ یہ معاملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے، جس میں حماس کے غیر مسلح ہونے کی شرط شامل ہے۔
بیرون ملک موجود حماس کے ایک رہنما نے براہِ راست تبصرے سے گریز کرتے ہوئے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ "ہم غزہ کو چوروں اور اسرائیلی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے ہتھیار قبضے کے خلاف مزاحمت کے لیے ہیں، اور جب تک قبضہ رہے گا، یہ ہتھیار بھی رہیں گے۔
بی بی سی کے مطابق غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ایک ریٹائرڈ سکیورٹی افسر نے خبردار کیا ہے کہ یہ پیشرفت علاقے کو اندرونی خونریزی کے ایک اور دور کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ان کے بقول، حماس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔
آپ کا تبصرہ