8 اکتوبر 2025 - 10:15
مآخذ: ابنا
طوفان الاقصی کے دو سال مکمل ہونے پر تل ابیب میں ہزاروں لوگوں نے جنگ کے خلاف احتجاج کیا

منگل کی شب تل ابیب میں ہزاروں احتجاجی مظاہرین دوبارہ سڑکوں پر نکل آئے اور غزہ میں جاری جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہوئے اسرائے فلسطینی کے تبادلے اور حماس کے ساتھ مذاکرات کے تسریع کا مطالبہ کیا۔

اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، منگل کی شب تل ابیب میں ہزاروں احتجاجی مظاہرین دوبارہ سڑکوں پر نکل آئے اور غزہ میں جاری جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہوئے اسرائے فلسطینی کے تبادلے اور حماس کے ساتھ مذاکرات کے تسریع کا مطالبہ کیا۔

الجزیرہ نے بتایا کہ آج (منگل) ہزاروں اسرائیلی شہری “میدان اسیران اسرائیلی میں جمع ہوئے تاکہ نیتن یاہو اور اس کے سخت گیر کابینہ کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کی مخالفت کریں۔ شرکاء نے غزہ کے خلاف جارحیت بند کرنے، اسرا کی جلد بازیابی اور تبادلے کے فوری معاہدے کا مطالبہ کیا۔

عملیات طوفان الاقصی ایک وسیع اور بے سابقہ فوجی حملہ تھا جو فلسطینی مزاحمتی گروپوں بالخصوص حماس نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳  کو اسرائیلی مقامات کے خلاف انجام دیا تھا۔ اس آپریشن میں ہزاروں راکٹ داغے گئے اور زمینی، بحری و فضائی داخلے کیے گئے جسے اسرائیل کی تاریخ میں سب سے بڑی انٹیلی جنس و فوجی ناکامی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کے بعد غزہ کے خلاف وسیع جنگ شروع کی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی، قحط اور انسانی ہلاکتیں ہوئیں  رپورٹ کے مطابق ۶۶ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔

تل ابیب میں مظاہرین نے بین الاقوامی برادری کی خاموشی، سلامتی کونسل کے ایمرجنسی مطالبات اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی ہدایات کو نظرانداز کرنے پر حکومت کی تنقید کی اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔

رپورٹ کے مطابق ۲۹ ستمبر ۲۰۲۵  کو امریکی صدر نے اپنے ۲۰ نکاتی منصوبے برائے جنگ بندی اور غزہ کی بحالی کا اعلان کیا — اگرچہ یہ منصوبہ جنگ ختم کرنے اور علاقے کی تعمیر نو کے اہداف رکھتا ہے، مختلف فلسطینی گروپوں، حقوقِ انسانی اداروں اور بعض مغربی تجزیہ کاروں نے اس کی شدید تنقید کی۔

الحاقاً، حماس نے ۳ اکتوبر ۲۰۲۵  کو ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کے جواب میں جنگ کے فوری خاتمے، اسرا کے تبادلے اور غزہ کے خود مختار انتظام کے مشروط وعدے کی منظوری کا اعلان کیا۔ حماس نے کہا کہ یہ فیصلہ وسیع مشاورت اور علاقائی ثالثوں کے ساتھ گفت و شنید کے بعد کیا گیا ہے اور اس میں کچھ شقوں کی مشروط منظوری سمیت مستقبل کے امور کو فلسطینی قومی مفادات کے دائرے میں زیرِ بحث رکھنے کی درخواست شامل ہے۔

امریکی صدر نے حماس کے بیان کے بعد کہا کہ ان کے خیال میں حماس پائیدار امن کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے اور اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کر دینی چاہیے تاکہ اسرا کی محفوظ رہائی ممکن بنائی جا سکے۔

غزہ میں جنگ بندی کے لیے مصر کے شہر شرم الشیخ میں فلسطینی اور اسرائیلی وفود کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ۶ اکتوبر ۲۰۲۵ سے شروع ہوئے؛ رپورٹ کے مطابق پہلے دور مذاکرات مکمل ہو چکا ہے اور تاحال آگے کی گفت و شنید جاری ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha