بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکی کانگریس ریسرچ سینٹر نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ (بعنوان) "امریکہ کے اسٹراٹیجک بمبار طیارے" (US strategic bombers) امریکہ کے تزویراتی بمبار بیڑے کی صورت حال کا جامع جائزہ لیا ہے۔
یہ رپورٹ، جو ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف امریکی فضائی کارروائی پر وسیع بحث و مباحثے کے موقع پر ہی جاری کی گئی، امریکی بھاری بمباروں کی ناسازی مزاج اور خستہ حالی، آپریشنل دباؤ اور (درپیش) تکنیکی رکاوٹوں [ناکامی] کی ایک پریشان کن تصویر پیش کرتی ہے اور کانگریس کو ان مسائل پر قابو پانے کے لئے تجاویز پیش کرتی ہے۔
جب ایران کی جغرافیائی وسعت تسدید (Deterrence) بن جاتی ہے
اس رپورٹ کے نتائج کے مطابق، جون 2025 میں "midnight hammer" کے عنوان سے جارحانہ کاروائی، جس کا مقصد ایران کی جوہری تنصیبات کے ایک حصے کو تباہ کرنا تھا، پچھلی دو دہائیوں میں امریکہ کے سب سے زیادہ مہنگی اور پیچیدہ ترین فضائی حملوں میں سے ایک ہے۔
اس حملے کے دوران، B-2 اسپرٹ کے سٹیلتھ بیڑے کا ایک بڑا حصہ اور کئی B-1B بمباروں کو بہت دور دراز فاصلے پر کثیر المراحل مشنز کے لئے تعینات کیا گیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ان میں سے کچھ مشنز نے 30 گھنٹوں سے زیادہ کی مسلسل پرواز کی۔
رپورٹ کے مطابق، اس آپریشن نے ثابت کیا کہ ایران جیسے تزویراتی گہرائی، انفراسٹرکچر کی منتشر نوعیت، اور کثیرالطبقاتی دفاعی نظاموں والے ملک کے سامنے دنیا کے جدید ترین بمبار بیڑے بھی بے شمار سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
محدود تعداد میں آپریشنل بمبار (خاص طور پر B-2)، اڈوں سے اہداف تک طویل فاصلہ، بار بار ایئر ری فیولنگ کی ضرورت، اور فوری مدد کے حصول کے لئے قریبی اڈوں کی کمی، وہ عوامل تھے جنہوں نے امریکی فضائی صلاحیت پر غیر متوقع دباؤ ڈالا۔
کانگریس ریسرچ سینٹر کے تجزیہ کاروں کے خیال میں، اس مشن نے نہ صرف تکنیکی صلاحیت بلکہ امریکہ کی جوہری ڈیٹرنس کی صلاحیت کو بھی چیلنج کیا، کیونکہ تیار بمباروں کا ایک بڑا حصہ طویل عرصے تک ڈیٹرنس کی سائیکل سے باہر ہو گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ ایران کی جغرافیائی وسعت اور مذکورہ دیگر عوامل کسی فوجی کارروائی کو اس حد تک پیچیدہ اور مشکل بنا سکتے ہیں کہ اسے انجام دینے والا فریق اپنے حساب کتاب پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کرے؛ یہ خود ایک قسم کی ڈیٹرنس سمجھی جاتی ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ایران کی جغرافیائی تقسیم پر دشمنوں کے اصرار کا ایک سبب درحقیقت یہی قابل ذکر وسعت ہے، جو اسلامی جمہوریہ کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اپنی دفاعی اور جارحانہ صلاحیتیں اور اہم بنیادی ڈھانچے اس طرح منتشر کرے کہ ان تک رسائی دنیا کی بہترین فضائیہ رکھنے والے کھلاڑی کے لئے بھی مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے۔
امریکی فضائی نظریئے میں ساختی کمزوریوں کا انکشاف
کانگریس ریسرچ سینٹر کی رپورٹ واضح طور پر کہتی ہے کہ "طویل رینج اور اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی اکیلے، علاقائی موجودگی اور سپورٹ انفراسٹرکچر کا متبادل نہیں بن سکتی؛ خاص طور پر ایران کے معاملے میں، جو باور-373، سوئم خرداد جیسے مقامی دفاعی نظام اور ایس-300 وغیرہ! جیسے درآمد کردہ نظام سے لیس ہے۔
پے در پے پرواز کے راستوں اور مسلسل خطرات نے امریکہ کے طویل فاصلے کے مشنز کو انتہائی بھاری لاجسٹک، ایندھن اور انسانی اخراجات سے دوچار کیا [اور وہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔]
کچھ امریکی قانون سازوں کے خیال میں اس تجربے سے ثابت ہؤا کہ طویل فاصلے سے طاقت کا مظاہرہ مستقبل کی جنگوں کے لئے ناکافی ہے۔ ایران جیسے پیچیدہ علاقائی اداکار کے مقابلے میں طاقت کے اظہار کے لئے، امریکہ کو زیادہ لچک، پھیلاؤ اور قوت برداشت کی ضرورت ہے اور 'مہنگی علامتی' ٹیکنالوجی اب کارآمد نہیں رہی۔
کانگریس کا فوری رد عمل: دفاعی نظریئے اور بجٹ میں فوری اصلاحات
ان چیلنجز کے نتیجے میں، امریکی کانگریس اور محکمۂ دفاع نے ملک کے اسلحے کے پروگراموں اور فضائی نظریئے میں اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے:
• نئی نسل کے B-21 رائیڈر بمبار کی تیاری:
امریکی فضائیہ کم از کم 100 B-21 بمبار حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ B-21 ایک سٹیلتھ ہوائی جہاز ہے جس میں اوپن آرکیٹیکچر، زیادہ رینج اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل لے جانے کی صلاحیت ہے، جو دشمن کے فضائی علاقے میں براہ راست داخل ہوئے بغیر بہت دور سے اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
• قابل استعمال ہوائی اڈوں کی تعداد اور آپریشنل پھیلاؤ بڑھانا:
امریکی فضائیہ پھرتیلے جنگی منصوبے (Agile Combat Employment) کے تحت انڈو پیسیفک خطے میں سویلین ہوائی اڈوں اور چھوٹے اڈوں کے استعمال کی مشق کر رہی ہے، تاکہ چند بڑے اڈوں پر انحصار کم کیا جا سکے۔
• دفاعی بنیادوں کی مضبوطی اور ہوائی پناہ گاہوں کا تحفظ (Base Hardening):
کانگریس کے بعض ارکان نے ان تنصیبات کو ڈرون اور میزائل حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے مضبوط پناہ گاہیں، خود مختار توانائی کے نیٹ ورکس اور اڈوں کو چھپانے کے لیے فنڈز مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
• بمباروں کی تعداد میں اضافہ اور الرٹ مشنوں پر نظر ثانی:
امریکی اسٹراٹیجک پوسچر کمیشن" کی تجویز کے مطابق، B-21 بمباروں کی تعداد 100 سے بڑھ کر 145 یا یہاں تک کہ 200 ہو سکتی ہے اور ان میں سے کچھ کو مستقل الرٹ کی حالت میں واپس لایا جا سکتا ہے، یہ وہ کیفیت ہے جسے سرد جنگ کے بعد سے ترک کر دیا گیا تھا۔
خلاصہ:
کانگریس ریسرچ سینٹر کی رپورٹ اور کانگریس کی سماعتوں میں اس کی عکاسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے خلاف آپریشن امریکی فضائی نظریئے میں نظرثانی کا ایک اہم موڑ بن گیا ہے۔ واشنگٹن پہلی بار سمجھا کہ وہ ـ دنیا کے جدید ترین بمبار رکھنے کے باوجود، کثیرالطبقاتی دفاع سے لیس ایک علاقائی طاقت کے خلاف طویل فاصلے کی جنگ ـ اس کے لئے بہت مہنگی اور سست، کمزور اور لاحاصل ہو سکتی ہے۔
چنانچہ، امریکی نیا طریقہ کار آپریشنل لچک، اڈوں کے پھیلاؤ، اور نئی نسل کے B-21 بمباروں کی ترقی پر مرکوز ہے۔ تاہم، کانگریس ریسرچ سینٹر کے بہت سے مبصرین کو شک ہے کہ یہ اصلاحات ایران کے خلاف آپریشن میں واضح ہونے والی ساختی کمزوریوں کو فوری طور پر دور کر سکیں گی۔
دوسرے لفظوں میں، ایران پر حملے نے نہ صرف امریکی فضائی طاقت کا امتحان لے لیا، بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ مستقل علاقائی رسائی کے بغیر اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی بھی ایران جیسے کھلاڑی کے مقابلے میں ـ مزید ـ بالادستی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔
آپ کا تبصرہ