15 اکتوبر 2025 - 01:41
بارہ روزہ جنگ میں انتہائی خفیہ اسرائیلی اڈے پر ایران کے کامیاب میزائل حملہ + تصاویر اور ویڈیوز

ایک امریکی ویب سائٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، ایران نے گذشتہ بارہ روزہ جنگ میں تل ابیب میں ایک رہائشی عمارت کے نیچے واقع ایک خفیہ کمانڈ اینڈ کنٹرول مرکز کو اپنے میزائل حملے کا نشانہ بنایا تھا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || "گرے زون / Grey Zone" سائٹ نے "جیک پولسن" (Jack Poulsen) نامی محقق کی ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے، جو پہلے گوگل کی مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کام کرتے تھے اور کمپنی کے انسانی حقوق کے وعدوں پر عمل نہ کرنے کے احتجاج میں استعفیٰ دے دیا تھا۔

مانور برای «وعده صادق 3» - تسنیم

پولسن نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور جارجیا ٹیک میں ـ ریاضی اور کمپیوٹیشنل انجینئرنگ کے شعبوں میں ـ اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ سائٹ "سائٹ 81" نامی ایک خفیہ فوجی اڈے اور مشترکہ امریکی-اسرائیلی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرکی شناخت کرنے میں کامیاب رہی، جو تل ابیب کے شمال میں ایک مصروف اور گنجان آباد علاقے میں ایک رہائشی ٹاور کے نیچے واقع  ہے۔

گرے زون نے مزید کہا کہ ایران نے 13 جون 2025 کو تل ابیب کے کئی حساس مقامات پر میزائل حملے کے دوران اس سائٹ کو نشانہ بنایا، اور صہیونی حکام نے فوری طور پر اس علاقے کو گھیر لیا اور رپورٹروں کو ویڈیو بنانے سے روک دیا، جن میں فاکس نیوز کا رپورٹر بھی شامل تھا جس کو زبردستی وہاں سے ہٹا دیا گیا۔

پوستر وعده صادق ۳

تحقیق کے مطابق، ڈیوینچی رہائشی ٹاور (Da Vinci Residential Tower)، جو ایرانی میزائل کے حملے کا نشانہ بنا، براہ راست اس خفیہ فوجی مرکز کے اوپر اور اسرائیلی ایئر فورس کے دو "کینارٹ" ٹاورز کے قریب واقع ہے۔

اس تحقیق سے معلوم ہؤا کہ اسرائیل نے "غیر فوجی  شہری علاقوں میں اپنے فوجی اڈے قائم کئے ہیں" جن کی معلومات پر وہ سختی سے سنسرشپ نافذ کرتا ہے، جبکہ اپنے دشمنوں ـ خاص طور پر فلسطینیوں ـ پر "عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے" کا الزام لگاتا ہے، ایسا رویہ جو بین الاقوامی قوانین کی رو سے، ممنوع ہے۔

وعده صادق ۳ و واکنش‌ها/شهادت ۲ سردار - ایسنا

اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سائٹ 81 کے 6000 مربع میٹر تک توسیعی منصوبے کا انکشاف 2013 میں امریکی حکومت کے دستاویزات میں ہوا تھا، لیکن اس کی صحیح جگہ آج تک نامعلوم رہی ہے۔

گرے زون کی ٹیم 2013 میں یو ایس آرمی کور آف انجینئرز کی طرف سے لی گئی ایک تصویر کو تلاش کرنے میں کامیاب رہی جس میں سائٹ کے کنکریٹ تہہ خانے اور سٹیل کے ڈھانچے پر ٹیسٹنگ کا کام دکھایا گیا ہے، اور یہ تصویر وہیں کی ہے جہاں اس وقت ڈاونچی ٹاور واقع ہے۔

عملیات وعده صادق ۳؛ موضوع تولید محتوای فرهنگی | تهران

گرے زون کی ٹیم 2013 میں امریکی فوج کے انجینئر کور کی لی گئی ایک تصویر کی مقامی جگہ کا تعین کرنے میں کامیاب رہی، جس میں مقام پر کنکریٹ کے تہھانے اور اسٹیل کے ڈھانچے پر تجرباتی کام دکھایا گیا تھا۔ یہ تصویر اس مقام سے لی گئی تھی جہاں اس وقت ڈاونچی ٹاور واقع ہے۔

یہ تصویر گوگل میپس کی تصاویر کے عین مطابق تھی، حالانکہ گوگل اس علاقے میں گلیوں اور سیٹلائٹ کی تصاویر کو سنسر کرتا ہے اور اس رپورٹ کے بیان کے مطابق اسرائیل کی جانب سے ڈیجیٹل سنسرشپ بھی جاری ہے۔ یہاں تک کہ روس کے یانڈیکس میپس نے بھی ٹاورز کی تصاویر اور ان کی وضاحتی ڈیٹا کو مکمل طور پر بند کردیا ہے۔

تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ "سائٹ 81" ایک بچوں کے کھیل کے میدان اور ایک سماجی مرکز کے 100 میٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے جو 2023 میں کھولا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل نے ایک انتہائی خفیہ فوجی تنصیب ایک گنجان آباد رہائشی علاقے کے درمیان قائم کی ہے۔

ٹاور کا ایک رہائشی کہتا ہے کہ اسے بعد میں معلوم ہؤا کہ وہ ہر ماہ جو 12000 شیقل کرایہ ادا کرتا تھا، درحقیقت 'کریا' (یا ہاکریا Hakirya) میں واقع فوجی ہیڈکوارٹرز کے تحفظ کی قیمت تھا۔

اس کمپلیکس کی عمارتیں اسرائیلی انٹیلی جنس سے وابستہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی بھی میزبانی کرتی ہیں، جن میں AI21 لیبارٹریاں بھی شامل ہے، جس کی بنیاد سگنل یونٹ 8200 کے سابق افسران نے رکھی تھی اور جس نے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے لئے تیار کردہ ChatGPT جیسے ایک فوجی AI سسٹم کی ترقی میں حصہ لیا تھا۔

نیز اس مقام کے قریب ہی سائبر سیکورٹی کمپنی پیریمیٹر 81، جو چیک پوائنٹ کی ذیلی کمپنی ہے، واقع ہے۔ یہ کمپنی اسرائیل کینیڈا گروپ کے ساتھ مل کر ایک نیا ہیڈکوارٹر بنانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے، جس نے 2015 میں ٹاور کی زمین اسرائیلی وزارت جنگ سے خریدی تھی۔

امریکی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ M+W گروپ (جو اب ایکسائٹ [Exyte] کے نام سے مشہور ہے) کے ٹیکساس برانچ نے 2011 میں اس سائٹ کی تعمیر کے لیے 7.4 ملین ڈالر کے معاہدے پر عملدرآمد شروع کیا۔ دوسرا مرحلہ 2013 میں آکسفورڈ کنسٹرکشن کمپنی کو 29.6 ملین ڈالر میں دیا گیا، اس سے پہلے کہ اس کمپنی پر بعد میں دھوکہ دہی اور مالی ہیرا پھیری کا الزام لگایا جاتا۔ ادائیگیاں 2019 تک جاری رہیں۔

اس تحقیق کے سب سے نمایاں نتائج میں سے ایک، نیٹو کے سابق کمانڈر جیمز اسٹاورڈیس (James G. Stavridis) اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ گابی اشکنازی (Gabi Ashkenazi) کے درمیان ایمیلز کی رِساو (Leakage) ہے۔

سنہ 2015 میں، اسٹاورڈیس نے لکھا: "میں ایک امریکی کمپنی تھنک لاجیکل کے ساتھ کام کر رہا ہوں جس نے اسرائیلی وزارت جنگ کے ساتھ سائٹ 81 میں ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول نیٹ ورک بنانے کا ایک بڑا معاہدہ منعقد کیا ہے۔"

گرے زون نے اس خط و کتابت کو اس سائٹ کی کمانڈ اور انٹیلی جنس نوعیت کی تصدیق قرار دیا ہے، جو تل ابیب کے مرکز میں ایک غیر فوجی علاقے کے نیچے بنائی گئی ہے اور امریکی اور اسرائیلی فوجوں کے درمیان ایک اسٹریٹجک رابطے کے طور پر کام کرتی ہے۔

اس رپورٹ سے یہ نتیجہ لیا گیا کہ اسرائیل نے تل ابیب کے مرکز کو ایک غیر فوجی ڈھانچے کے اندر ایک پوشیدہ فوجی مجموعے میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں انٹیلی جنس کے دفاتر اور کمانڈ سینٹر رہائشی ٹاورز اور بچوں کے کھیل کے میدانوں کے ساتھ واقع ہیں۔ یہ عمل واضح طور عیاں کرتا ہے کہ اسرائیلی عملی طور پر "غیر فوجیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر" استعمال کرتا ہے۔

اس سائٹ نے آخر میں لکھا کہ ایران کی طرف سے اس مقام پر بمباری کی معلومات کے اجرا میں سخت میڈیا سنسرشپ اور تاخیر نے اس مقام کی سلامتی اور سیاسی حساسیت کی علامت ہے اور امریکہ اور اسرائیل کے فوجی تعاون کے ایک ایسے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا گیا ہے جو تل ابیب کی چمکتی ہوئی غیر فوجی نمائش کے پیچھے چھپا ہؤا ہے۔

نکتہ:

اس پوری رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ جس اڈے کو اتنا محفوظ اور نظروں سے اوجھل رکھا گیا تھا، وہ کیونکر ایرانی میزائلوں کا نشانہ بنا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رپورٹ از: سعید زرمحمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha