بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر بریگيڈیئر جنرل الحاج اسماعیل قاآنی نے ٹی وی پروگرام "ہم عہد" میں شرکت کی اور کہا:
"شہید سید ہاشم صفی الدین" شہید نصراللہ کے ساتھ تعاون کا بنیادی ستون تھے
شہید سید ہاشم صفی الدین حزب اللہ کی تشکیل کے آغاز سے ہی ایک بہت ہی قابل قدر اور عظیم انسان تھے جو مختلف ذمہ داریوں میں جناب سید المقاومہ کے دوش بدوش کھڑے رہے اور ان سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔
یہ عظیم شہید جناب سید حسن نصر اللہ کے ساتھ تعاون کا بنیادی ستون تھ؛ اگرچہ انھوں نے اس طرح برتاؤ کیا کہ بہت کم لوگ ان کے اہم کردار سے واقف تھے۔
سید ہاشم حزب اللہ کے انتظامی انچارج تھے؛ یوں کہ وہ حزب اللہ کے تقریباً تمام شہری امور ـ بشمول ثقافتی، سماجی پہلوؤں اور لوگوں کی صورت حال ـ کی نگرانی کرتے تھے، خاص طور پر حالیہ برسوں میں جب لبنان پر شدید اقتصادی دباؤ تھا۔
ان حالات میں جناب سید المقاومہ کی براہ راست موجودگی میں، شیعہ اور غیر شیعہ شہریوں کی مدد کرنا ایک انتہائی مشکل اور اہم مشن کے طور پر جناب سید ہاشم کے مرکزی انتظآم کے تحت، سرانجام دیا گیا۔ اس شخصیت کے چہرے پر روحانیت، طاقت اور عظمت نمایاں تھی۔
آقا سید کی شہادت کے بعد سید ہاشم نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالا اور ان کے ساتھ رابطہ مشکل ہو گیا، یہاں تک کہ بات چیت کے لئے ملاقات کا وقت معین کیا گیا۔
شہید سید صفی الدین نے شہید نصر اللہ کے بعد حزب اللہ کو مضبوط انتظام کے ساتھ محفوظ رکھا
جناب سید ہاشم صفی الدین کے چہرے پر شِکستگی (ٹوٹ پھوٹ) کا کوئی اثر نہیں تھا؛ جس سے ان کی شاندار روحانی، نفسیاتی اور اخلاقی عظمت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جب میں نے انہیں خود دیکھا تو وہ اسی مضبوطی اور عظمت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور اس مضبوطی نے ہمیں بھی طاقت بخشی اور حوصلہ دیا۔
شہید سید ہاشم صفی الدین کے کام کی اہمیت یہ تھی کہ انھوں نے مشکل حالات میں اور جناب سید المقاومہ کی شہادت کے بعد نئے کمانڈروں کی تقرری کا کام سرانجام دیا اور نئے حالات کے پیش نظر، حزب اللہ کو کی کمر خم نہ ہونے دی اور اپنی مزاحمت کو برقرار رکھا۔
حزب اللہ کے بھائی جنہوں نے اس مزاحمت کو دیکھا تھا، وہ ان کی مضبوط قوت ارادی سے واقف تھے۔ رابطے محدود تھے لیکن خبریں ہم تک پہنچتی تھیں کہ وہ جناب سید المقاومہ کے بعد، سنجیدگی اور ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہیں حزب اللہ میں ایک طاقتور انتظامی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔
اگرچہ اس کا انتظامی تعلق تعلق زیادہ تر شہری اور غیر عسکری شعبے کے ساتھ رہتا تھا، لیکن وہ فوجی اقدامات کے حل پر بھی عبور رکھتے تھے، لیکن جناب سید المقاومہ کی شہادت سے پہلے تک، صرف اس وقت مداخلتکرتے تھے، جب جناب سید انہیں حکم دے دیتے تھے۔
حزب اللہ نے دباؤ کے بعد، دنیا کو اپنی طاقت اور بالیدگی دکھائی
جب کوئی کسی مسئلے پر توجہ مرکوز کرتا ہے، تو وہ تمام عوامل اور بااثر لوگوں کی شناخت کر لیتا ہے اور مختلف طریقوں سے مؤثر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد نفسیاتی اثر گذاری یا آپریشنل انداز کو برقرار رکھنا ہو تاکہ دشمن آسانی سے منصوبوں تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔
خوش قسمتی سے میدان میں موجود دوستوں نے محتاط منصوبہ بندی اور اعلیٰ مضبوطی کے ساتھ معاملات کو بخوبی سنبھالا اور ہمارا بھی فرض تھا کہ ان کے ساتھ موجود رہیں اور ان کی خدمت کریں۔
ان کوششوں کی بدولت، حزب اللہ، جسے لبنانی معاشرے میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، نے مختصر وقت میں اپنی غیر معمولی ترقی اور فخر کا مظاہرہ کیا۔
یہ رجحان نہ صرف دشمن بلکہ لبنانی معاشرے اور تمام بین الاقوامی مبصرین کے لئے بھی واضح تھا۔ مختلف جہتوں میں حزب اللہ کے ارکان کی کارکردگی نے ثابت کر دیا کہ یہ تنظیم اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے کہ دشمن کے دباؤ اور مشکلات کے ذریعے اسے ہلایا جا سکے۔
اسلامی انقلاب کی حکمت عملی میدان جنگ میں یقینی فتح کی بنیاد ہے
ہمارے پاس تنازع کا ایک منظر ہے جس میں میزائل اور ہوائی جہاز استعمال ہوتے ہیں اور ایران اس میدان میں اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق کام کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ یہ عظیم الشان منظر ایک حکمت عملی (بمعنی Tactic) کا حصہ ہے جس کے پیچھے ایک بڑی حکمت عملی (بمعنی Strategy) ہوتی ہے۔ ایک حربہ جس میں کبھی ہم حملہ کرتے ہیں اور کبھی ہمیں نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے 12 روزہ جنگ میں مجموعی نتیجہ ہمارے حق میں تھا اور اللہ کی قوت و مدد سے ہم نے دنیا میں فخر کے ساتھ فتح حاصل کی۔ یہ حکمت عملی انقلاب اسلامی کی منطق، حق کے دفاع اور باطل کو رسوا کرنے کرنے کے مستقل رجحان پر مبنی ہے، جس نے ہمیں اس میدان میں فاتحِ مطلق بنا دیا ہے۔
جیسے جیسے وقت گذر رہا ہے صہیونی ریاست کا مکروہ چہرہ تمام دنیا کے لوگوں کے سامنے عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کا گھناؤنا اور جھوٹا چہرہ ـ جو اس کی تصویروں اور ظاہروں ـ کے پیچھے چھپا ہؤا ہوتا ہے ہے، دن بدن عیاں تر ہوتا جا رہا ہے۔
صہیونی ریاست کی حمایت میں دنیا کی تمام بڑی سرمایہ کاریاں نہ صہیونیوں کے لئے مفید ثابت نہیں ہوئی ہیں بلکہ اس بات کا باعث بنی ہیں کہ آج دنیا بھر کی سڑکوں پر وہ لوگ بھی جو اس سے پہلے فلسطین کو نہیں جانتے تھے، فلسطینی عوام کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
مقاومت وقت گذرنے کے ساتھ زیادہ مضبوط اور زیادہ مسلح ہوگی
مقاومت کی حکمت عملی، فتح ہے اور ہم جیتتے رہیں گے۔ یہ حکمت عملی اسرائیل اور امریکہ کی کمر توڑ دے گی۔
صہیونی ریاست اپنے میزائلوں اور طیاروں میں اضافہ کرکے مزاحمت کو ختم نہیں کرسکتی کیونکہ مزاحمت ایک تلوار کی مانند ہے جو جتنی زیادہ گھِس جائے اتنی ہی تیز ہوتی جاتی ہے۔
یمن میں آٹھ سالہ جنگ کے تجربے سے ثابت ہؤا کہ مقاومت وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط اور بہتر طریقے سے [وسائل اور ہتھیاروں سے] لیس ہو سکتی ہے۔ نقصانات سہنے کا مطلب شکست نہیں ہے اور محاذ مزاحمت ہر دباؤ کے ساتھ مضبوط ہوتا جاتا ہے۔
اب حماس اور دیگر فلسطینی مقاومتی تحریکیں زیادہ طاقتور میزائل استعمال کر رہی ہیں اور غاصب دشمن شدید نقصانات سہنے کے باوجود، اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور مقاومت پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے۔
جنگ سے نقصان ہوتا ہے، لیکن مزاحمت زیادہ پائیدار ہے
جنگ فطری طور پر نقصانات اور مسائل کے ساتھ ہوتی ہے، لیکن میدان میں دو ثقافتوں اور دو قسم کے حوصلوں کا تصادم، واضح ترین فرق، معرض وجود میں لاتا ہے۔
اگرچہ ممکن ہے کہ مقاومت کو نقصان اٹھانا پڑے، لیکن اس کی خصوصیات کی وجہ سے اس کی ثابت قدمی مخالف محاذ سے زیادہ ہے۔
آپریشن کے میدان میں نقصانات کا ہونا فطری امر ہے لیکن اسٹرادیجک نقطہ نظر سے دنیا میں محاذ باطل پر محاذ حق کی فتح روز بروز عیاں سے عیاں ترین ہوتی جا رہی ہے۔
اس کا ثبوت مختلف ممالک میں فلسطین کی حمایت میں کروڑوں انسانوں کے اجتماعات سے ملتا ہے، جو ان ممالک میں سب سے بڑے تاریخی اجتماعات سمجھے جاتے ہیں۔
یہ رجحان دنیا میں حق و باطل کی فضا کے زیادہ واضح و روشن ہونے کا ثبوت ہے اور یہ امام مہدی (علیہ السلام) کے ظہور کی راہ ہموار کرے گا۔
لبنانی معاشرہ اور فوج حزب اللہ کی موجودگی کو سلامتی کی ضمانت سمجھتے ہیں
جناب سید المقاومہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کی طاقت کا ایک پہلو اس کی مضبوط قیادت ہے جس کا مظہر جناب شیخ نعیم قاسم جیسی قابل قدر شخصیت ہے۔
معاملات کو سنبھالنے اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں ان کی ثابت قدمی ـ بالخصوص امریکی اور صہیونی دباؤ کا مقابلہ کرنے میں ـ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
شیعیان لبنان اور لبنانی معاشرے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت روز بروز مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور اس طاقت نے حزب اللہ کے اصل مرکز اور کمانڈ سنٹر کے تحفظ میں مدد کی ہے۔
لبنانی عوام اور ملکی حکام بالخصوص فوج، اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ حزب اللہ کی موجودگی ہی لبنان کی سلامتی کی ضمانت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں کوئی ادارہ اس ملک کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کر سکے گا۔ اس سے لبنانی فوج کی طرف سے حزب اللہ کے لئے منطقی پشت پناہی اور حمایت حاصل ہوئی ہے۔
جناب شیخ نعیم قاسم کی قیادت اور حزب اللہ کے عہدیداروں کی کوششوں کی برکت سے، اس تحریک کا ادارہ ذمہ داری کے ساتھ جناب شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کی میراث کی حفاظت کر رہا ہے اور واضح طور پر ظاہر کر چکا ہے کہ حزب اللہ لبنان کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جا رہی ہے۔
مقاومت کی کامیابیوں میں شہید الحاج قاسم سلیمانی کا نمایاں کردار
حزب اللہ کو لبنان کے شیعہ معاشرے نیز بہت سارے عیسائیوں اور اہل سنت کی حمایت حاصل ہے اور وہ سب حزب اللہ کو نعمتِ عظمیٰ سمجھتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
یہ کامیابیاں سابق قائدین ـ بالخصوص آقا سید حسن اور آقا سید ہاشم ـ کی قابل قدر میراث ہیں، اور ان شاء اللہ ـ اللہ کی مدد سے ـ یہ عظمت محفوظ رکھی جائے گی۔
میدانوں میں حقیقی فاتح وہی لوگ ہیں جو حزب اللہ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں اور ہارنے والے وہ ہیں جو اس کے خلاف سرگرم ہیں، بالخصوص صہیونی ریاست اور اس اتحادی۔
الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد میں سپاہ پاسداران کی قدس فورس کی ذمہ داری سنبھالی۔ سید المقاومہ کے ساتھ پہلی ملاقات میں الحاج قاسم کے نمایاں اور مؤثر کردار ـ اور سید سے ان کی قریبی دوستی ـ پر بات ہوئی۔
ان دو بزرگواروں کی دوستی گہری محبت اور مقاومت کے معاملات پر سنجیدہ توجہ کا امتزاج تھی۔ مقاومت کی کامیابیوں اور حزب اللہ کی تقویت میں شہید الحاج قاسم سلیمانی کا کردار ناقابل انکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ