1 اکتوبر 2025 - 12:49
'ابراہیم معاہدے' پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے جبکہ غاصب صہیونی 'عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے بنا رہے ہیں؟

جب صہیونی واضح طور پر "عظیم تر اسرائیل" کی بات کرتے ہیں اور سرکاری طور پر اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنے پڑوس میں "فلسطین" نامی کسی ریاست کو قبول نہیں کریں گے، تو پھر کسی 'معاہدے' اور 'عہد' پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ٹرمپ کیوں کہتے ہیں: "میرا خیال ہے کہ ایران ابراہیم معاہدے میں شامل ہوجائے گا!"، اور وہ کیوں چاہتے ہیں کہ ایران اس معاہدے میں شامل ہو؟

یہ کہنا ضروری ہے: ٹرمپ اور صہیونیوں کے نقطہ نظر سے، ایران ہی ابراہیم معاہدے اور صہیونی ریاست اور عالم اسلام و عالم عرب کے درمیان تعلقات کی معمول سازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

'ابراہیم معاہدے' پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے جبکہ غاصب صہیونی 'عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے بنا رہے ہیں؟

'ابراہیم معاہدے' پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے جبکہ غاصب صہیونی 'عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے بنا رہے ہیں؟یقینا وہ خود بخوبی جانتے ہیں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، اور یہ بھی کہ ایران کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ اصل میں کوئی حقیقی معاہدہ ہے وجود ہی نہیں رکھتا!

ٹرمپ اور صہیونی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابراہیم معاہدہ عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہوں اور مغربی ایشیائی خطے کو پھنسانے کے لئے محض ایک چال ہے۔

جب صہیونی واضح طور پر ـ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اربوں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے ـ "عظیم تر اسرائیل" کی بات کرتے ہیں اور سرکاری طور پر اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنے پڑوس میں فلسطین نام کی کسی ریاست کو تسلیم نہیں کریں گے، تو پھر اس طرح کے کسی 'معاہدے' اور 'عہد' پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟!

تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہودی اپنے باضآبطہ طور پر، وعدوں کے پابند نہیں ہیں، خاص طور پر جب وہ اس عہدشکنی کا ببانگ دہل اعلان بھی کر رہے ہوں اور عظیم تر اسرائیل کی بات بھی  کر رہے ہوں۔

'ابراہیم معاہدے' پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے جبکہ غاصب صہیونی 'عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے بنا رہے ہیں؟

دوسری طرف، اس معاہدے کے ایک فریق خود ٹرمپ ہیں، جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی وعدے یا معاہدے کے پابند نہیں رہتے۔

ایرانی جوہری پروگرام کے معاہدے (JCPOA) سے ٹرمپ کا انخلا، جس پر ان کی پہلی مدت حکومت سے قبل کے دور حکومت میں امریکہ نے دستخط کئے تھے، اور ان ہی کی حکومت سے مذاکرات کے دوران ایران پر حملہ، یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کسی وعدے یا معاہدے کا پابند نہیں رہتے۔

یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ صہیونیوں کی دائیں بازو کی حکومت سمجھتی ہے کہ ٹرمپ "عظیم تر اسرائیل" کے قیام کے لئے ایک غیر معمولی موقع کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔

دوسری طرف، ٹرمپ خود ہی مکمل طور پر امریکہ میں صہیونی لابی "امریکی-اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی" (AIPAC) کے زیر اثر ہیں۔ صہیونی سمجھتے ہیں کہ یہ حالات خطے اور دنیا پر قبضہ کرنے کے یہودیوں کا خواب پورا کرنے کا بہترین موقع ہے!

چنانچہ بالفرض اگر فلسطین کا معاملہ ختم ہو گیا، اور قابض وجود پر فلسطینی مجاہدین کے حملے کا خدشہ ختم ہو گیا، تو تب ہی اصل سانحے کا آغاز ہوگا۔

غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کے بعد، "عظیم تر اسرائیلی ریاست" کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اردن، شام، لبنان اور عراق کو اس ریاست میں شامل کرنا ہوگا، یا انہیں اپنی نوآبادیاتی حکومت کے تابع بنانا ہوگا، تاکہ وہ یہودی ریاست کے لئے خطرہ نہ بن سکیں۔

اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ فلسطین کا معاملہ اور صہیونی قبضے کے خلاف فلسطینی مجاہدین کی جدوجہد کا آغاز ایرانی انقلاب کے ساتھ نہیں ہؤا (کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا قیام مقبوضہ فلسطین میں ہونے والی تبدیلیوں کے تقریباً بیس سال بعد عمل میں آیا)، لیکن اب، چونکہ صہیونی خود اسے ایرانی انقلاب سے جوڑنے پر اصرار کر رہے ہیں، تو یہ صہیونی قبضہ ان شاء اللہ ایران کے اسلامی انقلاب کے ذریعے ہی ختم ہو کر رہے گا۔

والسلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: محمد کاظم کاظمی، بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha