15 ستمبر 2025 - 00:39
کیا طویل اسرائیل نوازی کے باوجود، قطر کے بعد ترکیہ کی باری ہے؟ / ممکنہ اسرائیلی حملہ

صہیونی اخبار "ہاآرتص" لکھتا: اگر صہیونی ریاست ترکیہ پر حملہ کرتی ہے اور ترکیہ اور غاصب ریاست کے درمیان تنازع جنگ کی صورت اختیار کرتا ہے، تو اس کے نتیجے میں مغربی ایشیا کی جنگوں میں ایک اور جنگ کے اضافے کے ساتھ ساتھ، ایک تزویراتی زلزلہ بھی آئے گا جو طاقت کے عالمی توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ||

ممکنہ جنگ کے اثرات

تمہید اور پس منظر

ہاآرتص لکھتا ہے: ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں حالیہ اضافہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے لئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ دونوں ممالک تاریخی طور پر امریکہ اور یورپ کے اہم تزویراتی شراکت دار رہے ہیں، لیکن گذشتہ کچھ سالوں میں ان کے تعلقات میں مسلسل بگاڑ آ رہا ہے۔ خاص طور پر، غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد ترکیہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف سخت موقف اس کشیدگی میں نمایاں اضافے کا باعث بنا ہے۔

تنازع کے اہم محرکات

حماس سے وابستگی

اخبار کے دعوے کے مطابق، ترکیہ کا حماس کے ساتھ گہرا تعلق اس تنازع کی 'ایک' وجہ ہے۔ ترکیہ حماس کے رہنماؤں کی میزبانی کرتا ہے، انہیں عوامی اجتماعات کی اجازت دیتا ہے، اور مالی وسائل اور بھرتی کے لئے ترکیہ کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حماس کے اعلیٰ عہدیداروں کے دفاتر استنبول میں کام کر رہے ہیں، اور صدر اردوغان نے حماس کو ایک جائز مزاحمتی تحریک قرار دیا ہے، نہ کہ دہشت گرد گروہ۔

مخاصمانہ بیانات

• صدر اردوان نے اسرائیل پر نسل کشی کا الزام عائد کیا ہے اور اسرائیل کے خلاف اپنی تنقید میں شدت پیدا کی ہے۔

• ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اسرائیل جانے والے جہازوں اور بحری جہازوں کے لئے ہوائی اور بحری رسائی پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ اگرچہ یہ اقدامات علامتی ہو سکتے ہیں، لیکن بین الاقوامی قانون کے تحت انہیں جنگی اقدامات سمجھا جا سکتا ہے۔

• وزیر اعظم نیتن یاہو نے جوابی کارروائی میں پہلی بار اعلانیہ طور پر پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانیوں کے ہاتھوں آرمینیائیوں کی نسل کشی کو تسلیم کیا۔

فوجی تصادم کے امکانات

فوجی طاقت کا موازنہ

اسرائیلی فوجی برتری: ہاآرتص کے دعوے کے مطابق، اسرائیل ٹیکنالوجی کے میدان میں ترکیہ سے بازی لے گیا ہے ایف-35 فضائی بیڑا، آہنی گنبد (Iron Dome) ڈیفنس سسٹم، اور جدید الیکٹرانک وارفیئر سسٹم فضا میں اس کے غلبے کو یقینی بناتے ہیں۔

ترکیہ کی فوجی صلاحیتیں: ترک فوج نیٹو کی دوسری سب سے بڑی اتحادی ہے، جو امریکہ کے بعد آتی ہے۔ ترکیہ نیٹو میں اپنے کردار کی وجہ سے تزویراتی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

جوہری عوامل: اسرائیل کے غیر اعلان شدہ لیکن وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ کسی بھی ممکنہ تصادم پر سایہ فگن ہے، جو ترکیہ کے پاس موجود نہیں ہے۔

 شامی تنازع میں شرکت

دونوں ممالک کے پاس شام میں نمایاں فوجی موجودگی ہے:

• ترکیہ کے فوجی شمال میں تعینات ہیں۔

• اسرائیلی فوجی جنوب پر کنٹرول رکھتی ہے۔

• آذربائیجان کی ثالثی میں اپریل میں 'اتفاقیہ جھڑپوں' کو روکنے کے لئے ایک تناؤ کم کرنے کا میکانزم قائم کیا گیا تھا، لیکن تناؤ کو بڑھنے سے روکنے کے لئے کوئی باقاعدہ چینل نہیں ہے۔

حالیہ مہینوں میں شام میں اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان قریب سے جھڑپیں ہوئی ہیں، جس میں اسرائیل نے ترکیہ کی نگرانی کے آلات کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔

ممکنہ جنگ کے اثرات

علاقائی اور عالمی اثرات

اگر جنگ شروع ہو جاتی ہے، تو اس کے وسیع اثرات مرتب ہوں گے:

فوری تباہی: شام میں تباہی کے علاوہ، دشمنی بحیرہ روم تک پھیل سکتی ہے، جہاں ترکیہ کی بحریہ ساحلی توانائی کے صہیونی بنیادی ڈھانچے پر حملہ کر سکتی ہے۔

سائبر اور پراکسی جنگ: مکمل پیمانے پر تصادم میں سائبر حملے، دہشت گردی کے واقعات، اور نیابتی (یا پراکسی) جنگ شامل ہوگی۔

علاقائی مداخلت: مصر، یونان، اور خلیجی بادشاہتیں خطے کے اہم کھلاڑیوں کے طور پر فریقین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں گی۔

عالمی طاقتوں کی مداخلت: امریکہ، روس، اور چین جیسی عالمی طاقتیں اس جنگ میں کھنچی چلی جائیں گی۔

اقتصادی اور تزویراتی اثرات

اقتصادی ہلچل: جنگ عالمی منڈیوں میں گونجے گی، ممکنہ طور پر توانائی کے بحران اور معاشی عدم استحکام کا باعث بنے گی۔

تزویراتی زلزلہ: نیٹو غیر مستحکم ہوگی، اتحاد ٹوٹ جائیں گے، اور عالمی طاقت کا توازن درہم برہم ہوگا۔

نتیجہ:

امن کے امکانات اور مستقبل

ہاآرتص کا خیال ہے کہ فی الحال، تناؤ میں کمی اور روک تھام برقرار ہے۔ تاہم، پرجوش بیانات، اتحادوں، اور فوجی تعیناتیوں کا سلسلہ خطرناک سمتوں میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر کھلا تصادم ہوتا ہے، تو اس کے نتائج نہ صرف دونوں فریقوں کے لئے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور مغربی سلامتی کے نظام کے لئے تباہ کن ہوں گے۔

ہاآرتص کی تجویز ہے کہ بین الاقوامی برادری کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان بات چیت اور تناؤ میں کمی کے لئے کام کرے تاکہ خطے میں مزید عدم استحکام کو روکا جا سکے۔ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست رابطوں کے باضآبطہ چینلز کا فقدان تشویش کا ایک اہم سبب ہے، اور ثالثی کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

ہاآرتص کے تجزیئے پر مختصر تبصرہ:

واضح رہے کہ یہ تجزیہ غیر جانبدارانہ تجزیوں کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ یہ ایک صہیونی اخبار کا تجزیہ ہے اور اس میں بہت سے حقائق کو نظرانداز کیا گیا ہے اور اسرائیل کے خلاف ترکیہ کے اقدامات کو مبالغہ آمیز انداز سے پیش کیا گیا ہے؛ حالانکہ غزہ جنگ کے دوران بھی فریقین کے درمیان وسیع پیمانے پر تجارتی تبادلوں میں نمایاں اضافہ نظر آیا ہے۔ صہیونی اخبار نے اس بات کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر ا‏عظم  نے لبنان، شام، یمن، ایران اور قطر پر حملے کئے ہیں اور گریٹر اسرائیل کا اعلان کرکے ترکیہ اور عربوں کا اعتماد کھو چکا ہے۔ قطر پر امریکی حمایت میں اسرائیلی حملے کے بعد ترکیہ سمیت اسرائیل اور امریکہ کے تمام دوستوں کے درمیان تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اگر جنگ ہوتی ہے تو اس کی وجہ حماس کی حمایت نہیں بلکہ اسرائیل کے وسیع تر تزویراتی عزائم ہیں جس نے سب کو بے وقوف بنایا اور اب وہ سب اسی کی طرف سے خطرے سے دوچار ہیں۔

تجزیئے میں اسرائیلی فوج طاقت کے بارے میں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے، آئرن ڈوم ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ ترکی کی فوجی طاقت، ڈرون صلاحیت اور فضائی دفاعی نظام کو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔

صہیونی اخبار نے صہیونیوں کے جوہری ذخیرے کو تسلیم شدہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ ذخیرہ ابھی تک درپردہ ہے اور اس کے بارے میں کوئی مستند معلومات نہیں ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک غیر قانونی اور خفیہ صلاحیت ہے جسے باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور کم از کم مسلم ممالک کے اس حوالے سے وسیع پیمانے پر تحفظات ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha