19 ستمبر 2025 - 03:00
صہیونی پراجیکٹ شکست و ریخت سے دوچار / اسرائیل عنقریب بالکل تنہا رہ جائے گا، نیتن یاہو کا اعتراف + تصاویر اور ویڈیو

صہیونی ریاست کے وزیراعظم نے ایک غیر متوقعہ بیان میں اعتراف کیا کہ یہ ریاست تنہائی کے راستے پر ہے چنانچہ صہیونیوں کو خودکفالت پر مبنی معیشت کی طرف بڑھنا ہوگا، / ایک ایسا بیان جو وسیع ردعمل باعث بنا ہے۔ ہمیں "اسپارٹا" کی طرح اپنے وسائل پر اکتفا کرنا ہوگا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا کے مطابق، حالیہ ایام میں، صہیونی ریاست کے دہشت گرد اور جرائم پیشہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک غیر متوقعہ تقریر میں صہیونی ریاست سے متعلق ایسے حقائق تسلیم کئے جن سے مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں میں شدید حیرت اور تشویش پھیل گئی ہے۔

ریاست کے وزیراعظم، جو گذشتہ مہینوں میں داخلی اور خارجی دباؤ اور حملوں کا نشانہ بنا ہؤا ہے، نے بین الاقوامی سطح پر ریاست کی بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے دو سال کے بے مقصد اور لاحاصل جنگ کے بعد کہا: "ہم تنہا ہو رہے ہیں اور ہمیں 'اسپارٹا' کی طرح خود کو خودکفیل معاشرے بنانا ہوگا۔" نیتن یاہو نے جنگ کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "عوام کو خود کفالت کی خصوصیات والی معیشت کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا ہوگی، کیونکہ میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔"

پروژه صهیونیستی در آستانه فروپاشی/ اعتراف تاریخی نتانیاهو: اسرائیل در آستانه انزوای کامل جهانی

نیتن یاہو کے بیان کے ایک گھنٹے بعد ہی اسرائیلی اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ کی زبردست لہر شروع ہوئی؛ نیتن یاہو یہ لہر روکنے کے لئے ایک اور انٹرویو دیا اور اپنے الفاظ بھی تبدیل کر دیئے لیکن اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ نہیں رکی اور یہ صورتحال بدستور جاری ہے۔

بہت سارے عبرانی ذرائع ابلاغ اور ماہرین نے بنیامین نیتن یاہو کا جائزہ لینا شروع کیا ہے اور سب نے اس ریاست کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

پروژه صهیونیستی در آستانه فروپاشی/ اعتراف تاریخی نتانیاهو: اسرائیل در آستانه انزوای کامل جهانی

اسرائیل ہیوم نے اس حوالے سے لکھا: "نیتن یاہو کے ریمارکس غیر معمولی اور افسوسناک ہیں اور یہ الفاظ ایک خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں اییسا خطرہ جو حقیقت بن سکتا ہے۔"

اگرچہ نیتن یاہو کے ریمارکس اس ریاست کے خلاف عالمی غم و غصے میں نمایاں اضافے اور پوری دنیا میں صہیونیت مخالف افکار میں شدت آنے کا دیر سے آنے والے اعترافات ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بہت اہم اور چشم کشا ہیں۔

صہیونی ریاست کے دہشت گرد وزیر اعظم بنیامین نتانیاہو جو گذشتہ دو سالوں سے غزہ، مغربی کنارے اور پورے مغربی ایشیا کے خطے میں مسلسل قتل و غارت گری کے ذریعے اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لئے کوشاں ہے اور ماہرین کی انتباہات پر کوئی توجہ دیے بغیر اپنی خود غرضانہ پالیسیوں کو جاری رکھا ہؤا ہے، اب وہ اس طرح کی کمزور صورت حال کو دیکھ رہا ہے کہ وہ اس صورتحال کو مزید چھپا نہیں سکتا۔ دنیا میں حکومت کی پوزیشن اور اس حکومت کو درپیش سنگین چیلنج کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔

پروژه صهیونیستی در آستانه فروپاشی/ اعتراف تاریخی نتانیاهو: اسرائیل در آستانه انزوای کامل جهانی

گذشتہ دو برسوں میں صہیونی ریاست کے خلاف عالمی اقدامات نے صہیونیوں کو ایسی مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے کہ آج مقبوضہ فلسطین کے باشندے بیرونی ممالک  جانے پر اپنا اصلی نام اور شناخت چھپانے پر مجبور ہیں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ صہیونی اور اصطلاحاً "اسرائیلی" ہیں۔

"اسرائیلی" جو کبھی سمجھتے تھے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر مکمل قبضے اور خطے کے دیگر ممالک پر تسلط کی صہیونی تزویر حکمت عملی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں حائل نہیں ہے اور وہ جو کرنا چاہیں کر لیں گے، اب خود کو عالمی تنہائی کا شکار پاتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں۔

گذشتہ دو سالوں میں صہیونی ریاست کے خلاف عالمی اقدامات نے "اسرائیلیوں" کو ایسی مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے کہ آج مقبوضہ فلسطین کے باشندے بیرونی ممالک میں جانے پر مجبور ہیں کہ وہ اپنا اصلی نام اور شناخت چھپائیں تاکہ کوئی انہیں صیونیست ہونے کا پتہ نہ لگا سکے۔

"اسرائیلی" جو کبھی سمجھتے تھے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر مکمل قبضہ اور خطے کے دیگر ممالک پر تسلط کی ان کی حکمت عملی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اب خود کو عالمی تنہائی کا شکار پاتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں۔

لیکن صہیونیوں کا بحران کا یہیں خاتمہ نہیں ہوتا۔ صہیونی ریاست کے لئے صورتحال اتنی مشکل ہو گئی ہے کہ نیتن یاہو اس ریاست کو قدیم یونان کے اسپارٹا جیسی بدوی معاشرے میں تبدیل ہونے کی ضرورت کی بات کر رہا ہے۔ اسپارٹا قدیم یونان کا ایک جنگجو اور سخت معاشرہ تھا جس کا اپنے اردگرد کی دنیا سے کوئی قابل ذکر تعلق نہیں تھا۔ نیتن یاہو کا اسپارٹا جیسے معاشرے میں تبدیل ہونے پر زور دینا ان تارکین وطن اور بستی نشینوں یہودی آبادکاروں کے لئے ایک تلخ اور پریشان کن خبر ہے جو اچھی زندگی، سکون اور خوشحالی کے بہت سے وعدوں کے ساتھ مقبوضہ فلسطین نقل مکانی کرنے پر آمادہ ہوئے تھے۔

لیکن کن عوامل کی وجہ سے آج صہیونی ریاست کی صورتحال اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بنیامین نیتن یاہو اس ریاست کی تنہائی پر آنسو بہا رہا ہے؟

غزہ میں جنگ، نسل کشی اور قحط

فی الحال تقریبا دو سال کے عرصے سے صہیونی ریاست بے دفاع غزہ کے عوام کا بے رحمانہ اور جنون آمیز انداز سے قتل عام کر رہی ہے۔ اب تک 70 ہزار سے زیادہ نہتے فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، "اسرائیلی" حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ غزہ کے شہداء کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے اور بعض تخمینوں کے مطابق شہداء کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اور اقوام متحدہ کی ایلچی فرانچسکا آلبانیز نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شہداء کی تعداد موجودہ اعلان شدہ تعداد (65000) سے دس گنا زیادہ ـ یعنی چھ لاکھ ـ ہو سکتی ہے۔

صہیونی ریاست کی فوج کی طرف سے سرکاری طور پر نسل کشی کے اعلان کے بعد، 70 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کے قتل عام، قحط اور محاصرے پر عالمی غصہ صہیونی ریاست کے خلاف عالمی اقدامات کی سب سے اہم وجہ ہے۔

فلسطین کو تسلیم کرنے کی لہر

صہیونی ریاست کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم میں شدت آنے کے ساتھ، متعدد ممالک (بشمول مغربی یورپ) نے اعلان کیا ہے کہ وہ صہیونی رہنماؤں کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں گے، جس کی وجہ سے دنیا بھر کی حکومتوں کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کی عالمی لہر میں تیزی آئی ہے۔

اسی سلسلے میں، گذشتہ ہفتے جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نیو یارک ڈیکلیریشن کی حمایت میں ایک قرارداد کا مسودہ منظور کیا جس میں دو ریاستی حل کے نفاذ اور حماس کی غیر موجودگی میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی ہے۔ رائے شماری کا نتیجہ یہ تھا: 142 ووٹ قرارداد کے حق میں آئے،  10 ووٹ مخالفت میں آئے اور 12 ممالک کے مندوبین غیر حاضر رہے؛ اور یوں یہ قرارداد منظور ہوئی جو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت میں نیو یارک ڈیکلیریشن کی حمایت کرتی ہے۔

خطے کے ممالک پر جارحیت

خطے کے ممالک بشمول شام، لبنان، ایران، یمن اور قطر پر صہیونی ریاست کی غیر قانونی جارحیتیں اور خطے کے دیگر ممالک کے خلاف فوجی کارروائیوں کی ضمنی دھمکیوں نے مغربی ایشیا میں کشیدگی کے ماحول میں اضافہ کیا ہے اور اس ریاست کی جارحیتوں کے خلاف وسیع بین الاقوامی ردعمل پیدا ہؤا ہے، یہاں تک کہ کوئی بھی مغربی رہنما اس ریاست کی فوجی کارروائیوں کی حمایت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

عوامی احتجاجات اور BDS

مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ریاست کے جرائم اور نسل کشی میں شدت آنے کے ساتھ، وسیع پیمانے پر مظاہرے، پابندیاں اور عالمی سطح پر تنہائی کی مہمات، بشمول صہیونی سیاحوں کے داخلے پر پابندیاں اور اس ریاست کی کمپنیوں کی مصنوعات پر پابندیاں، زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہیں جن میں سب سے زیادہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ شامل ہیں۔

صہیونی ریاست کے خلاف یہودیوں کا مظآہرہ

صہیونی ریاست کے خلاف ـ دنیا بھر میں روزانہ اور ہفتہ وار اجتماعات اور غزہ میں صہیونی مجرموں کی تصاویر اور دستاویزات کی اشاعت نے صہیونی ریاست کے خلاف عالمی غصے اور نفرت میں اضافہ کیا ہے اور دنیا کے زیادہ تر حصوں کو اس ریاست سے وابستہ افراد یا مقبوضہ فلسطین کے رہائشیوں کے لئے غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

بین الاقوامی قانونی اقدامات

غزہ میں صہیونی ریاست کے وحشیانہ جرائم اور خطے میں لبنان و شام جیسے ممالک پر جارحیتوں کے بعد، بہت سے بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ریاست اور اس کے رہنماؤں کے خلاف قانونی چارہ جوئیوں کا آغاز کیا ہے جن میں سب سے اہم ہیگ کی عدالت کا اقدام ہے جس نے نیتن یاہو اور صہیونی ریاست کے سابق وزیر جنگ گالانٹ کو جنگی مجرم قرار دیتے ہوئے دنیا کے بہت سے ممالک میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا ہے۔

'ہند رجب فاؤنڈیشن' جیسے قانونی اداروں کی رپورٹس اور دیگر اقدامات، جو "صہیونی" فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پیروی اور بیرونی ممالک میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ حاصل کرنے پر کام کر رہے ہیں، بین الاقوامی قانونی اقدامات کا حصہ ہیں جن کی وجہ سے اس ریاست کو دنیا میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

صہیونی ریاست کے خلاف پابندیاں لگانے کا عمل

گذشتہ مہینوں میں یورپی ممالک سمیت دنیا کے بہت سے ممالک نے ـ خاص طور پر ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے شعبے میں ـ پابندیوں کے پیکج تیار کر لئے ہیں، جو اس ریاست کی آمدنی اور اس کی فوج کی تعمیر نو کا  ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ فرانس، ہالینڈ، برطانیہ، اسپین اور اٹلی کی طرف سے اس ریاست کے جرائم کی وجہ سے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی نے مستقبل قریب کے حالات کے سلسلے میں اس ریاست کے حکام میں وسیع پیمانے پر تشویش پیدا کی ہے۔

یورپی میڈیا کے مطابق، یورپی کمیشن نے اسرائیل کے خلاف پابندیوں کا پیکج یورپی یونین کی کونسل کو پیش کیا ہے؛ اس پیکج میں اسرائیل سے درآمد ہونے والے سامان کی ترجیحی ٹیرف ختم کرنا، 2025 سے 2027 تک سالانہ مالی امداد معطل کرنا، چار قانونی دستاویزات اور یورپی یونین کے عالمی انسانی حقوق کی پابندیوں کے نظام کے دائرہ کار میں نیتن یاہو کی کابینہ کے 9 وزراء اور انتہا پسند بسنے والوں کی پابندی کی فہرست شامل ہے۔

پروژه صهیونیستی در آستانه فروپاشی/ اعتراف تاریخی نتانیاهو: اسرائیل در آستانه انزوای کامل جهانی

صہیونی ریاست غزہ میں غیر انسانی جنگ، جارحانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کا سامنا کر رہی ہے۔ کئی ممالک اسے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندیاں لگا رہے ہیں، درجنوں ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں یا تسلیم کر رہے ہیں، عالمی سطح پر اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، اور بین الاقوامی قانونی اقدامات نے اس تنہائی کو مزید بڑھا دیا ہے، یہاں تک کہ اس ریاست کے وزیر اعظم کو خبردار کرنا پڑ رہا ہے کہ "ہم تنہائی کے راستے پر ہیں"۔ یہ صورت حال اس ریاست کے سفارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات پر دباؤ ڈال رہی ہے اور فی الحال اس صورتحال میں بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha