بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || صہیونی ریاست کے روایتی بیانیے نے ـ جو "حقِ وجود"، "سلامتی" اور "اپنا دفاع" جیسی بنیادوں پر استوار تھا ـ اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں اور جاری جرائم پر کسی بھی قسم کی تنقید کی سطح کو "یہود دشمنی (Antisemitism)" تک گھٹا دیا اور اس کا مقصد ہر قسم اختلافی آواز کو دبانا تھا۔
لیکن غزہ پر وحشیانہ جارحیت اور نہتے عوام اور بچوں اور خواتین کے بہیمانہ قتل عام کی تصویریں براہ راست منظر عام پر آئیں تو صہیونی سینسر کی بلند دیواریں دنیا کے بیدار ضمیروں کے سامنے زمین بوس ہوئیں؛ جس کے بعد سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی مقبولیت ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ عالمی رائے عامہ میں اس وقت 'صہیونی ریاست کے وجود' کے خلاف ایک فکری انقلاب ابل پڑا ہے۔ یہ رپورٹیں صہیونیوں کی گہری تنہائی اور اس کے رسمی بیانیے کی مطلق شکست کو ثابت کرتی ہیں اور اب یہ بیانیہ مزید بیدار عالمی اذہان کو قائل کرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ اس مضمون میں ان سروے رپوٹوں اور قابض ریاست کے مستقبل اور عالمی نظام پر ان [رپورٹوں اور نتائج] کے گہرے اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے:
روایتی بیانیوں کا زوال: مغرب اور دنیا کے دل میں عوامی بیداری
روایات کی جنگ وہ جنگ ہے جسے صہیونی ریاست واضح طور پر ہار رہی ہے۔ عالمی رائے عامہ، خاص طور پر نوجوان نسل، اب آسانی سے سرکاری اور دقیانوسی بیانیوں کا دھوکہ نہیں کھاتی۔ غزہ سے جو کچھ نشر ہو رہا ہے، وہ محض ایک فوجی تصادم نہیں بلکہ ایک کھلا ہوئی نسل کشی ہے جس کے المناک پہلوؤں میں روز بروز شدت آرہی ہے۔ رائے شماری کے اعداد و شمار اس بیداری اور عوامی غم و غصے کو واضح طور پر ظاہر کر رہے ہیں:
- برطانیہ میں Focaldata اور UnHerd کی رپورٹ کے مطابق، 54% نوجوان (18 سے 24 سال) کا ماننا ہے کہ "اسرائیلی ریاست کا وجود نہیں ہونا چاہئے"۔ یہ اعداد و شمار اسرائیل کے حامیوں کے لئے ایک صدمہ ہیں اور فلسطین کے مسئلے پر بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں۔
- 50٪ نوجوان جوان اسرائیلی ریاست کو غزہ کا جنگ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، نہ کہ حماس یا دیگر مزاحمتی گروہوں کو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا "اپنا دفاع" والا بیانیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
- نوجوانوں کی غزہ کی جنگ میں دلچسپی (38%)، یوکرین جنگ (19%) سے کہیں زیادہ ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ نسل سوشل میڈیا اور آزاد معلومات کے بدولت حقیقت کو بہتر طور پر سمجھ رہی ہے۔
امریکہ میں تبدیلی:
- ہارورڈ یونیورسٹی کے سروے کے مطابق، 51% امریکی نوجوانوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو ختم کر کے اس [فلسطین] کو حماس کے حوالے کر دینا چاہئے۔
- 60% نوجوان 7 اکتوبر کے حملے کو فلسطینیوں کے جائز غم و غصے کا جائز رد عمل اور قابل فہم سمجھتے ہیں۔
- 67% کا ماننا ہے کہ یہودیوں کو "ظالم" کے طور پر پہچاننا چاہئے، جو صہیونی لابی کے لئے ایک خطرناک انتباہ ہے۔
المختصر: نوجوان نسل اب صہیونیت (بحیثیت استعماری سیاسی نظریہ) اور یہودیت (بحیثیت مذہب) میں فرق کر رہی ہے، جو مستقبل میں امریکہ اور مغرب کی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالے گا۔ اس تبدیلی سے اسرائیل کے لئے عالمی حمایت مستقبل میں بہت کم رہ جائے گی۔
*****
مغربی دارالحکومتوں میں اسرائیل کی تاریخی تنہائی
امریکہ میں صہیونیتوں کے روایتی حمایتی مورچوں میں دراڑ
امریکہ میں اسرائیل کی حمایت، جو کبھی دو جماعتی اجماع کی حامل تھی، اب گہرے سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔ گیلپ کے سروے کے مطابق:
- 60% ڈیموکریٹس اب اسرائیل کے خلاف منفی رائے رکھتے ہیں، جو تاریخی تبدیلی ہے۔
- 83% ریپبلکن اب بھی اسرائیل کے حامی ہیں، جس سے امریکہ میں اس معاملے پر شدید کثیر قطبی (اور صہیونیت ریاست کے سلسلے میں امریکی جماعتوں کی رائے میں شدید انقسام کی کیفیت) نظر آتی ہے۔
- 53% امریکی بالغوں کی اسرائیل کے بارے میں منفی رائے (گذشتہ 3 سال میں 11% اضافہ)۔
- صرف 32% امریکی بنیامین نیتن یاہو پر اعتماد کرتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صہیونی لابی کو اب دونوں جماعتوں کی بے چوں و چرا حمایت حاصل نہیں رہی ہے اور اب اسرائیلی آسانی سے فیصلہ ساز اداروں پر اثر و رسوخ نہیں چلا سکتے۔
یورپ میں صہیونیت کی روایتی حمایت زوال پذیر: عوامی غصہ اور سیاسی دباؤ
یورپ میں بھی اسرائیل کی روایتی حمایت تیزی سے گر رہی ہے:
- 6 یورپی ممالک (برطانیہ، جرمنی، فرانس، ڈنمارک، اٹلی، اسپین) میں 63-70% عوام اسرائیل کے خلاف ہیں، جبکہ صرف 13-21٪ مثبت رائے رکھتے ہیں۔
- 80٪ جرمن شہری (جو تاریخی طور پر اسرائیل کے حامی رہے ہیں) اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو "ناجائز" اور "غیر قانونی" قرار دیتے ہیں۔
- یورپ میں اکثریت غزہ کے خلاف اسرائیلی اقدامات کو غیر متناسب اور ظالمانہ سمجھتی ہے، جس کی وجہ سے حکومتوں پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
المختصر:
- امریکہ اور یورپ دونوں میں اسرائیل کی عوامی حمایت تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔
- نوجوان اور ترقی پسند طبقہ خاص طور پر اسرائیل کے خلاف ہے، جو مستقبل کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوگا۔
- اسرائیل کا "خود دفاع" کا بیانیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے، اور اس کے اقدامات بین الاقوامی سطح پر نسل کشی کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
یہ تبدیلیاں اسرائیل کے لیے عالمی سطح پر سیاسی تنہائی اور دباؤ کا باعث بن رہی ہیں۔
*****
انصاف کا مطالبہ اور پابندیوں کا مطالبہ: قبضہ ختم کرنے کا یورپی مطالبہ
عملی اقدامات کا مطالبہ
- ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی: یورپ کے 5 بڑے ممالک (بیلجیم، فرانس، جرمنی، اٹلی، سویڈن) میں کم از کم 50٪ عوام اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے پر پابندی کے حامی ہیں۔
- جنگی جرائم کے خلاف ردعمل: یورپی عوام اسرائیل کے ساتھ اپنے ممالک کے فوجی تعاون کو جنگی جرائم اور نسل کشی میں معاونت سمجھتے ہیں۔
- میڈیا پر عدم اعتماد: اکثریت کا خیال ہے کہ یورپی میڈیا کی رپورٹنگ اسرائیل کے حق میں جانبدارانہ ہے، جس نے لوگوں کو سوشل میڈیا اور متبادل ذرائع کی طرف راغب کر دیا ہے۔
عالمی سطح پر اسرائیل کی تنہائی
- 24 ممالک میں سروے: پیو ریسرچ سینٹر کے عالمی سروے کے مطابق، 20 ممالک میں اکثریت اسرائیل کے بارے میں منفی رائے رکھتی ہے۔
- نتانیاہو کی بدنامی: اسرائیلی وزیراعظم دنیا کے سب سے کم مقبول ترین رہنماؤں میں شامل ہے۔
- اسرائیلی عوام کا اعتراف: 58% اسرائیلی شہری [یہودی آبادکار] تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی ریاست بین الاقوامی سطح پر قابل احترام نہیں ہے۔
اندرونی اور بیرونی زوال کے آثار
- مشروعیت [یا قانونی جواز] کا بحران (Legitimacy crisis): اسرائیل اپنی بین الاقوامی اور اخلاقی حیثیت کھو چکا ہے۔
- نسلی تقسیم: نوجوان نسل اسرائیل کے روایتی بیانیے اور متعلقہ تشہیری مہم کو مسترد کر رہی ہے۔
- حقیقت کی تلاش: دنیا بھر کے لوگ غزہ کے حقائق تک براہ راست رسائی حاصل کر رہے ہیں۔
المختصر، اسرائیل نہ صرف بیرونی طور پر تنہا ہو رہا ہے بلکہ اس کے اندر بھی اس کے اقدامات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ رجحان باعث بنا ہے کہ اب عالمی برادری اب فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے۔
*****
ایک غاصب ریاست کا زوال اور انصاف پسندی کا نیا دور
بین الاقوامی تنہائی کا بحران
- عالمی سطح پر اسرائیل کو بے مثال تنہائی کا سامنا ہے
- روایتی اتحادی بھی اب اسرائیل کے خلاف ہو رہے ہیں
- نوجوان نسل خصوصاً اسرائیلی پروپیگنڈے کو مسترد کر رہی ہے
عوامی رائے میں انقلابی تبدیلی
- "نسل کشی" کا لیبل اور "اسرائیل کے وجود پر سوال" اب مین اسٹریم خیالات بن چکے ہیں
- اسرائیلی جرائم اور مظالم کی براہ راست تصاویر اور معلومات نے اسرائیلی اور اسرائیل نواز مغربی پروپیگنڈے کو ناکام بنا دیا ہے
- عالمی سطح پر 'فلسطینیوں کے ساتھ انصاف' کا مطالبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے
مستقبل کے امکانات
- وجودی خطرہ: اسرائیل بین الاقوامی برادری میں اپنی جگہ کھو رہا ہے
- اخلاقی دباؤ: ممالک کو اب سیاسی مفاد اور عوامی دباؤ میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا
- نئی اخلاقی طاقت: انصاف پسند عالمی رائے عامہ اب ظالم ریاستوں کو برداشت نہیں کرے گی
المختصر: یہ صرف ایک ریاست کا نہیں، بلکہ استعماری سوچ کے خاتمے کا آغاز ہے۔ نئی نسل نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تاریخ کے غلط پہلو کو ختم کرنا ہے، اور یہ تبدیلی اب ناقابل واپس بن چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ