31 جولائی 2025 - 05:06
حزب اللہ کا ہتھیار لبنان کی حفاظت کے لئے ہے/ امریکہ اسرائیل کے جرائم میں شریک ہے، شیخ نعیم قاسم

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے زور دے کر کہا کہ مقاومت نہ صرف اسرائیل کے خلاف ایک رکاوٹ کا کردار ادا کر رہی ہے، بلکہ لبنان میں ریاست کی تعمیر کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ "نعیم قاسم" لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی ضاحیہ میں حزب اللہ کے کمانڈر سید فواد شکر (سید محسن) کی شہادت کی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے  کہا:

• ہم دو محاذوں پر کام کر رہے ہیں: اسرائیل سے اپنی مقبوضہ اراضی کی آزادی اور مزاحمت، اور ریاست کی تعمیر کے لئے سیاسی سرگرمی؛ اور ہم ان دونوں محاذوں میں سے کسی ایک کو دوسرے کے متبادل کے طور پر نہیں لیتے، بلکہ ہم دونوں میدانوں میں بیک وقت کام کرتے ہیں۔ لہٰذا، ان دو محاذوں کے درمیان کوئی سودے بازی ممکن نہیں ہے۔

شیخ نعیم قاسم: سلاح حزب‌الله،قدرت لبنان است/ هرگز سلاحمان را به صهیونیست‌ها نخواهیم داد

• کئی سالوں سے جاری بحران کے بعد جوزف عون کو صدر منتخب کیا گیا۔ مزاحمت نے اس عمل کو آسان بناتے ہوئے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ریاست کی تعمیر کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔

• یہاں ایک فطری سوال پیدا ہوتا ہے: لبنان میں ریاست کیسے بنائی جائے؟ کچھ لوگ نہیں جانتے کہ وہ چوری کرنے آئے ہیں یا معاشرے کے ایک حصے کو ختم کرنے؟

• مقاومت ایک قبضے کے خلاف ردعمل کے طور پر سامنے آئی، لبنانی فوج کی صلاحیت کے خلا کو پُر کیا، اور سن 2000 میں ایک شاندار فتح اور جنوبی لبنان کی آزادی کا سبب بنی۔

• یہ مقاومت اسرائیل کے مقابلے میں تسدیدی و دفاعی کردار ادا کرنے کرنے اور لبنان کی حفاظت جاری رکھنے، کے فرائض کے ساتھ، جاری ہے۔ یہ مقاومت کبھی بھی کسی کی پوزیشن یا عہدے پر قبضہ نہیں کرتی اور نہ کرے گی۔ فوج ذمہ دار ہے اور رہے گی۔ قوم ذمہ دار ہے اور رہے گی۔ ہم اس اتحاد پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مقاومت فوج اور عوام کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔ ہم صرف نعرے نہیں لگاتے بلکہ اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ تینوں محاذ جتنے مضبوط اور ہم آہنگ ہوں گے، اتنی ہی بہتر کامیابیاں حاصل ہوں گی۔

• ہم نے معرکۂ "اولی البأس" میں اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا اور ایک سمجھوتہ حاصل ہؤا اور میں اصرار کے ساتھ کہتا ہوں کہ 'کہ یہ سمجھوتہ اسرائیل ہی کے اپیل پر منعقد ہؤا تھا'۔ اسرائیل کے ہاں یہ ایک کامیابی سمجھی جاتی تھی  کہ حزب اللہ دریائے لیطانی کے جنوب سے پیچھے ہٹ جائے اور لبنانی فوج اس علاقے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے۔ ہمارے نقطہ نظر سے، یہ ایک فتح و کامیابی ہے کہ لبنانی حکومت ملک کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کر لے۔ اس سمجھوتے کے ہمارے لئے بھی فوائد تھے اور دشمن کے لئے بھی۔ ہم نے حکومت کی مدد کی، لیکن اسرائیل معاہدے پر قائم نہیں رہا۔ یہ سمجھوتہ صرف لیطانی کے جنوب تک محدود تھا۔ اگر کوئی معاہدے اور حزب اللہ کے ہتھیاروں کے درمیان کوئی تعلق دیکھتا ہے تو اسے جان لینا چاہئے کہ ہتھیار لبنان کا اندرونی معاملہ ہے اور اسرائیل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

• معرکۂ "اولی البأس" کے بعد، اسرائیل نے اپنی جارحیت جاری رکھی، لیکن کم شدت کے ساتھ، اور حزب اللہ اور لبنان پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ حزب اللہ کمزور ہو گئی ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے رہی ہے۔ ہم نے کہا کہ جب حکومت نے ذمہ داری قبول کر لی ہے تو ہماری ذمہ داری نہیں کہ تنہا جواب دیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے سمجھا کہ حزب اللہ کمزور ہو گئی ہے، لیکن جب انھوں نے حکومتی ڈھانچے میں، جنوب میں، اور شہید سید حسن نصراللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین سمیت شہداء کے جنازے کی شاندار تقریبات کو دیکھا تو حیران رہ گئے۔ وہ انتخابات کے نتائج سے بھی حیران ہوئے۔ یہ سب ثابت کرتا ہے کہ مقاومت سیاسی، سماجی، صحت اور خدمات، غرضیکہ ہر میدان میں ایک مضبوط کردار ادا کر رہی ہے۔

• اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اب بھی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ہم اسے اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ سازش سمجھتے ہیں۔ امریکہ نے ہوک سٹائن کی ضمانت کے تحت اسرائیل کی طرف سے معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن بعد میں ایک نمائندہ بھیجا جس کا مقصد لبنان میں بحران پیدا کرنا تھا۔ امریکہ مدد کرنے کے بجائے ہمارے ملک کو تباہ کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کی مدد کر سکے۔

• بارک دھمکیاں اور دہشت پھیلا کر آیا اور دھمکی دی کہ وہ لبنان کو شام میں ضم کر دے گا اور نقشے سے مٹا دے گا، لیکن لبنانیوں کے متحد، قومی اور مقاومتی موقف سے ششدر رہ گیا۔ اس کا وہم تھا کہ لبنان کہ تینوں سربراہان پر دباؤ ڈال کر فتنہ پیدا کر سکے گا، لیکن وہ بے خبر تھا؛ وہ [امریکی] لبنان کی خصوصیات سے ناواقف ہیں۔ امریکہ لبنان کو نئے مشرق وسطیٰ کے منصوبے کا آلہ کار بنانا چاہتا ہے اور اس کی طاقت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

• شمال فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں آٹھ ماہ سے امن قائم ہو چکا ہے، لیکن لبنان میں ابھی تک نہیں۔ اسرائیل پانچ سرحدی علاقوں پر قابض ہے تاکہ امریکی حمایت سے حزب اللہ کے ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر سکے۔ ان کا مقصد لبنان کو فوجی طاقت سے خالی کرانا ہے، تاکہ بعد میں ان علاقوں کو وسعت دے کر یہودی بستیاں تعمیر کر سکیں اور لبنان کی اندرونی سیاست میں مداخلت کر سکیں۔ یہی وہ چیز ہے جو شام میں وقوع پذیر ہوئی۔

• ہم ایک وجودی خطرے کا سامنا کر رہے ہیں، نہ صرف مقاومت کے لئے بلکہ پورے لبنان اور تمام لبنانی مذاہب و اقوام اور پوری لبنانی قوم کے لئے۔ خطرہ اسرائیل، داعش اور امریکہ کی طرف سے ہے۔ وہ نہ صرف مزاحمت کے ہتھیار چھیننا چاہتے ہیں، بلکہ لبنان کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ خود سے نہیں پوچھتے کہ وہ سرحدوں ے دیہی علاقوں کے لوگوں کو واپس کیوں نہیں آنے دیتے؟

• بلاشبہ ہم لبنان کو اسرائیل کے ہاتھ فروخت نہیں کریں گے۔ خدا کی قسم! اگر ساری دنیا ہمارے خلاف متحد ہو جائے اور ہم سب شہید ہو جائیں، تب بھی اسرائیل ہمیں شکست نہیں دے سکتا یا لبنان کو غلام نہیں بنا سکتا۔ ہمارے ہتھیار اسرائیل کے مقابلے کے لئے ہیں اور لبنان کے اندرونی معاملات سے ال کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ہتھیار لبنان کی طاقت ہیں۔ جو کوئی بھی ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے، درحقیقت وہ لبنان کو اسرائیل کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔

• ہم عزت و وقار والے لوگ ہیں، ہم امام حسین (علیہ السلام) کے فرمان پر یقین رکھتے ہیں کہ "ہیھات منا الذلۃ" (دو ہو ہم سے ذلت)۔ ہم دفاع کریں گے چاہے یہ ہماری شہادت ہی کیوں پر منتج کیوں نہ ہو۔ قبضہ ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا۔ ہم موجود رہیں گے کیونکہ ہم حق پر ہیں اور حق ہمارے ساتھ ہے۔

• لبنانی حکومت کو اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں؛ جارحیت کو بھی روک لے اور اور تعمیر نو کا کام بھی جاری رکھے۔ اگر امریکہ بیرونی امداد میں رکاوٹ ہے تو حکومت دوسرے راستے تلاش کرے۔ تعمیر نو ملک کی معیشت کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے شہید سید فؤاد شکر (سید محسن) کے بارے میں کہا: سید محسن بقاع کے رہنے والے اور حزب اللہ کے اولین فوجی کمانڈروں میں سے تھے۔ وہ اس گروپ کے رہنما تھے جو 'دس نفری عہدِ گروپ' کے نام سے مشہور تھا اس گروپ کے تمام ارکان شہید ہو گئے۔ انھوں نے امام خمینی اور پھر امام خامنہ ای کے ساتھ بیعت کی تھی۔ جنوبی لبنان، بوسنیا اور 2006 کی جنگ میں بڑی کارروائیوں میں ان کا اہم کردار تھا۔ وہ حزب اللہ کے بحری اور استشہادی یونٹس کے ذمہ دار تھے اور صہیونی قیدی پکڑنے کے لئے ہونے والی کاروائیوں کے منصوبہ سازوں میں سے ایک تھا۔ معرکۂ طوفان الاقصیٰ میں بھی ان کا فعال کردار تھا۔ وہ ایمان، استقامت، پختگی، مضبوطی اور تخلیقی سوچ کے حوالے سے مشہور تھے۔ ہم ان کے خاندان اور تمام چاہنے والوں کو ان کے فقدان پر تعزیت پیش کرتے ہیں۔

شیخ نعیم قاسم نے اختتام پر حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: یہ شہادت فلسطینی مقاومت کا تسلسل ہے جو آج عالمی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ ہم امریکی-صیہونی مظالم کے نتیجے میں غزہ میں بچوں اور خواتین کے قتل عام اور بھکمری کو دیکھ رہے ہیں جبکہ بین الاقوامی تنظیمیں صرف بیان بازی کر رہی ہیں۔ ان مظالم کو روکنے کے لئے ضمانتیں دی جانی چاہئیں۔

انھوں نے حال ہی میں 41 سال تک اسیری کاٹنے کے بعد فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والے مجاہد اسیر جارج عبداللہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ جارج عبداللہ مقاومت و مزاحمت کی ایک مثال ہیں جنہوں نے فخر کے ساتھ 40 سال فرانس کی جیل میں گذارے۔ مقاومت تمام لوگوں اور فرقوں کی مشترکہ میراث ہے، اور ہم سب فلسطین کی آزادی کے لئے متحد ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha