بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
تاریخ میں بہت سارے تھے ایسے جنہوں نے سر پر تاج سجایا مگر ان کے دل شجاعت سے خالی تھے، وہی جنہوں نے طوفان کے وقت سب سے پہلے، کشتی کو ترک کر دیا۔ رضآ شاہ نے دوسری جنگ عظیم میں ایران پر روس اور برطانیہ کا قبضہ ہونے کے بعد، اجنبی قوتوں کی مرضی پر تاج و تخت چھوڑ دیا، اور اور بھاگ گیا، اس کا بیٹا محمد رضا شاہ بھی ایک بار 1951 میں اور آخری بار 1978 میں ملک چھوڑ دیا، جب اسلامی انقلاب کی لہروں نے اس کی تخت پر لرزہ طاری کیا ہے۔ اس ملک نے حکام کی بزدلی اور کمزوری کو بار بار دیکھا تھا لیکن انقلاب اسلامی کا سورج طلوع ہونے کے بعد ماحول بدل گیا۔ نسل شجاعت کے چشم و چراغ "امام سید روح اللہ الموسوی الخمینی (رضوان اللہ علیہ)" میدان میں آئے۔ شاہ اور اس کے آقا امریکہ کی ہیبت کو روند ڈالا اور پرچم تسلیم (Flag of surrender) کو گرا دیا؛ وہ جوانمرد جو میزائل حملون کے باوجود اپنی رہائشگاہ سے نہیں نکلے۔ اور لوگوں کو سکھا دیا کہ "رہبر کو جہاد اور مقاومت کی پہلی صف میں کھڑا ہونا چاہئے تاکہ ایک بہادر قوم کی پرورش کی جا سکے"۔
وہ اللہ کے مہمان ہوئے تو دوسرا سورج طلوع ہؤا، امام سید علی الحسینی الخامنہ ای نے بھی شجاعت اور وقار کا پرچم ایران کی چوٹیوں پر لہرایا، وہ شعلوں کے بیچ کھڑے ہوئے، لیکن نہ صرف جلے نہیں بلکہ نور بن گئے اور امت مسلمہ کا راستہ روشن کر گئے۔ سنہ 1981ع میں تہران کی مسجد ابوذر کے محراب میں مغربی-صہیونی حملے میں زخمی ہوئے، مگر بلا خوف و خطر، اسپتال سے اپنے رہبر و مرشد امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کو وفاداری کا پیغام دیا۔
میں اس ذریعے سے یہیں سے امامِ امت کے حضور اپنا بے پایاں سلام و عقیدت پیش کرتا ہوں، اور ان سے عرض کرتا ہوں کہ ایسے واقعات کے مقابلے میں ہمیں کوئی توقع نہیں ہے، اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ ان کی طرف سے ذرا سی بھی فکرمندی ہو۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ 'مے کی صراحی کا سر سلامت رہے، پیالہ اگر ٹوٹ بھی جائے'؛ نیز، ہم مسلمان اور بہادر امت سے، جو محاذوں پر اور محاذوں کی پشت پناہی میں اس قدر قربانیاں دے رہی ہے، جو اپنی عزیز اور بیش قیمت جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کر رہی ہے، یہ توقع نہیں رکھتے کہ اس قسم کے چھوٹے موٹے واقعات پر اظہارِ تشویش کریں اور ہمیں اس سے بھی زیادہ شرمندہ کریں جتنا ہم پہلے ہی ہیں۔" دو جولائی، 1981ع
جمعہ 15 مارچ 1985ع کو جب وہ تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، نمازیوں کے درمیان ایک بم پھٹا کئی شہید ہوئے اور کئی زخمی لیکن اس سید نے خطبہ جاری رکھا، ان کی آواز میں لرزش نہیں آئی، کھڑے رہے اور خطبہ مکمل کیا اور نماز پڑھایا اور دشمن کو ثابت کرکے دکھایا کہ وہ نماز جمعہ میں بھی اپنا مورچہ نہیں چھوڑا کرتے۔
جنگ کے زمانے میں محاذ جنگ پر رہے، یہاں تک کہ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے ان سے فرمایا کہ "کم جایا کریں، محاذ جنگ پر"، لیکن شجاعت ان کی فطرت ہے، پھر پر بھی امام کی اجازت لینے میں کامیاب ہوئے اور محاذ جنگ پر واپس چلے گئے۔
انسانیت کے بدترین دشمن نے شہید جنرل سلیمانی کو شہید کردیا تو ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران جواب دے تو وہ ایران کے 82 مقامات پر حملہ کرے گا، لیکن سید علی (حفظہ اللہ) نے عوام کے بیچ حاضر ہوکر لوگوں سے خطاب کیا اور نہ ایک بار بلکہ امریکہ کے خلاف جوابی کاروائی کے بعد، شہید جنرل سلیمانی کی مجلس فاتحہ میں حاضر ہوئے۔ تقریبا 8 ماہ قبل جب صہیونی ریاست کے خلاف آپریش وعدہ صادق-2 انجام پایا تو سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے فرمایا کہ نماز جمعہ کی امامت خود کریں گے، اور یہ کام بھی کرکے دکھایا حالانکہ صہیونیوں نے بمباری کی دھمکی دی تھی۔ امام معاشرہ، امام جمعہ کے طور پر نماز میں حاضر ہوکر دشمن کی دھمکی کا جواب بھی دیا، راہ شہیدوں کے خون اور مہاکاوی کی روح سے تجدید عہد بھی تھی۔
اور آج، جنگ کے دنوں میں، جبکہ دشمن کی نفسیاتی جنگ اور دھمکیوں کا سلسلہ، اور شیاطین کی زبانوں پر گستاخیوں کا سلسلہ، عروج پر ہے؛ رہبر انقلاب، قائد المقاومۃ العالمیہ، اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف اسی سکون و اطمینان اور شجاعت و بہادری کے ساتھ، پھر بھی میدان میں حاضر ہیں۔ آپ نے سابقہ برسوں کی طرح، پھر بھی محرم کی مجالس حسینیۂ امام خمینی(رح) میں برپا کر دیں، تاکہ جھوٹوں اور گستاخوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہو اور دنیا بھر کے مقاوم اور مؤمن آنکھوں کے لئے روشنی کا چراغ اور دلوں کو لئے تسکین بھی۔
رہبر انقلاب اسلامی نہ صرف میدان کے کمانڈر ہیں بلکہ جنگ کا مرکز و محور اور دھڑکتا ہؤا دل بھی ہیں، آگ کے دنوں میں کھڑے ہیں، یلغار کی راتوں میں روشنی بخشتے رہے ہیں، بحرانوں میں تسکین کا سبب رہے ہیں اور دھمکیوں اور خطروں کے موقع پر شجاعت و استقامت کی علامت۔
اس حسینی سید کی ہمت و شجاعت کی نوعیت نعروں اور چیخ و پکار سے کی نہیں بلکہ اس کا سرچشمہ ایمان اور حکمت ہے، یہ وہ ہمت و شجاعت ہے، جو تاریخ میں امر ہوجایا کرتی ہے، جس طرح کہ عاشورا میں ہمت و شجاعت محض شمشیربازی سے تھی بلکہ آزمایش کی گھڑی میں جم کر کھڑے رہنے سے عبارت تھی۔ اور یہ رہبر عزیز اس قوم کے ہر روز کے عاشورا میں جم کر کھڑے ہیں، وہ نہ صرف بہادر اور باہمت رہبر ہیں بلکہ ایک ملت اور ایک امت کی عزت و وقار کی علامت بھی ہیں؛ ایسی ملت اور ایسی امت جو اس قسم کی قیامت کی برکت سے، طوفانوں میں اپنی قامت خم نہیں کیا کرتی۔
آج ہم ایک ایسے چہار راہے پر کھڑے ہیں، جو مستقبل کی تعمیر کرتا ہے اور تاریخ کی ورق گردانی کرتا ہے اور معاشرے کے ولی کی ہمت و شجاعت ہے جو محاذ حق کی فتح کے رقم کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110







آپ کا تبصرہ