بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || گارڈین اخبار نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسے اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس ایجنسی (امان) کی خفیہ دستاویزات ملی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں ہر چھ شہیدوں میں سے پانچ عام شہری ہیں۔
گارڈین، اسرائیلی-فلسطینی میگزین +972، اور عبرانی میڈیا "لوکل کال" کی مشترکہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مئی تک ـ یعنی جنگ شروع ہونے کے 19 مہینوں کے دوران، ـ اسرائیلی انٹیلیجنس اہلکاروں کا تخمینے کے مطابق، حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کے 9,000 معلوم جنگجوؤں کو شہید یا 'شاید' کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، غزہ کی صحت کے اہلکاروں کے اعدادوشمار کے مطابق، اسرائیلی فوجی حملوں میں اس وقت تک 53,000 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور یہ تعداد اگست 2025 میں 62000 سے تجاوز کر گئی ہے۔
گارڈین کے مطابق، یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ 83 فیصد متاثرین عام شہری تھے۔
شماریات کے ایک ماہر "تھیریس پیٹرسن"، نے اس تناسب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "عام شہریوں کے اتنے زیادہ جانی نقصان کی شرح انتہائی زیادہ ہے، خاص طور پر جب کہ یہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری ہے۔ آپ کو کچھ شہروں یا دوسری لڑائیوں میں اسی طرح کے تناسب نظر آسکتے ہیں، لیکن یہ تناسب پوری جنگوں میں بہت ہی شاذ و نادر ہوتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ 1989 سے اب تک، صرف بوسنیا کی جنگ، روانڈا کے نسل کشی اور 2022 میں ماریوپول کے محاصرے میں شہریوں کی کل اموات کی تعداد میں تناسب اس سے زیادہ رہا ہے، اگرچہ یہ تناسب پوری جنگ بوسنیا میں نہيں رہا۔
گارڈین نے لکھا کہ اسرائیلی فوج نے اب تک اس ڈیٹا بیس کے وجود اور حماس اور اسلامی جہاد کے ہلاکتوں کے اعداد و شمار سے انکار نہیں کیا ہے، لیکن گارڈین کے تبصرے کی درخواست کے جواب میں، اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ وہ اپنا جواب "دوبارہ لکھے گا"۔
رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ایک مختصر بیان بھیجا جس میں سوالات کا براہ راست جواب نہیں دیا گیا اور صرف لکھا: "دیے گئے اعداد و شمار غلط ہیں" اور "فوج کے سسٹمز میں موجود ڈیٹا کی عکاسی نہیں کرتے"۔
یہ ڈیٹا بیس حماس اور اسلامی جہاد کے فوجی ونگوں میں سرگرم 47,653 فلسطینیوں کے ناموں پر مشتمل ہے اور غزہ میں حاصل ہونے والے ان گروہوں کے داخلی دستاویزات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ انٹیلیجنس ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج اس ڈیٹا بیس کو جنگجوؤں کی ہلاکتوں کا واحد قابل اعتماد اعداد و شمار سمجھتی ہے اور ساتھ ہی غزہ کی وزارت صحت کے اعلان کردہ اعداد و شمار کو بھی قابل اعتماد مانتی ہے، حالانکہ اسرائیلی سیاستدان عام طور پر ان اعداد و شمار کو پراپیگنڈا مہم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 14 مئی 2025 تک اسرائیلی حملوں میں 52,928 افراد شہید ہو چکے ہیں، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تعداد اصل تعداد سے کم ہو سکتی ہے۔
گارڈین کے مطابق، غزہ کی وزارت صحت صرف برآمد ہونے والی لاشوں کو رجسٹر کرتی ہے، اور ان ہزاروں افراد کو اس گنتی میں شامل نہیں کیا گیا ہے جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فیلڈ انٹیلیجنس کے ایک ذریعے نے گارڈین کو بتایا: "لوگوں کو مرنے کے بعد دہشت گرد کے درجے پر ترقی دی جاتی ہے!!۔ اگر میں بٹالین کی بات سنتا، تو میں یہ نتیجہ اخذ کرتا کہ ہم نے علاقے میں حماس کی 200% فوجی مار ڈالے ہیں۔"
ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل اسحاق بریک، ـ جو نیتن یاہو کے سخت ناقد ہیں ـ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: "اعلان کردہ اعداد و شمار اور حقیقت میں جو ہو رہا ہے اس کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے؛ یہ محض ایک بڑی شیخی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی شناخت کرنے والی یونٹ کے ساتھ ملاقات میں، فوجیوں نے انہیں بتایا: "ان میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔"
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، متعدد اسرائیلی فوجیوں نے گواہی دی ہے کہ غزہ میں تمام فلسطینیوں کو 'ہدف' سمجھا جاتا ہے۔
ایک فوجی جو اس سال رفح میں تعینات تھا، نے بتایا کہ اس کی یونٹ نے ریت میں ایک "خیالی لکیر" کھینچی تھی اور جو کوئی بھی اسے پار کرتا تھا، اسے گولی مار دی جاتی تھی؛ جس میں دو بار بچوں اور ایک بار ایک عورت کو نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا: "نشانہ مارنے کا مقصد ہلاک کرنا تھا، انتباہ دینا نہیں تھا۔ کوئی بھی کسی کے پیروں پر گولی نہیں مار رہا تھا"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ