بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
پرسوں رات، عاشورا کی شب تھی۔
اس سے دو شب قبل حسینیۂ امام خمینی(رح) میں پرجوش عزاداری کی مجالس منعقد ہوئی تھیں۔ حسینیہ میں مشتاق اور عاشق لوگوں کا ہجوم تھا۔ طے یہ نہیں تھا کہ آقا تشریف لائیں گے، لیکن امید نے دلوں کے اندر، دم نہيں توڑا ۔۔۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ آج کی رات! آج کی رات کچھ مختلف ہے۔
مغرب کی اذان میں ابھی پچاس منٹ باقی تھے، میں لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ پروگرام کے کس حصے میں تھے—شاید مجلس شروع ہونے سے پہلے یا نماز کے بعد۔ میرا آدھا دھیان جناب شاہی کے بچوں پر تھا؛ جنہوں نے محفل میں رونق بھر دی تھی، اور آدھا اس آواز کی تلاش میں تھا جو ابھی آئی نہیں تھی۔
اچانک فضا میں ایک دلنشین آواز گونجی... کسی نے کہہ دیا "آقا کی کرسی لائی گئی..."
میرے دل کو ڈھارس ہؤا، میرا اطمینان اور بڑھ گیا۔
زیارتِ عاشورا پڑھی گئی، نماز ادا ہوئی، اور حاج آقا عالی نے منبر پر قدم رکھا۔
انہوں نے ایران کے بارے میں بات کی؛ قوت اور طاقت، امید، اور ہمارے رہبر کی علمداری کے بارے میں، میدانِ جنگ میں ہماری بالادستی کے بارے میں۔
ایک گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ مجمع کے دل سے ایک آواز اُٹھی: ’آقااااا! آقا آ گئے، آقا آ گئے...!
سب ایک ساتھ کھڑے ہو گئے، آنسو اور خوشیاں ایک ہو گئیں۔ بابا امیرالمؤمنین(ع) کے نام کے ذکر کی صدا: 'حیدر حیدر' نے دلوں کو آگ لگا دی تھی۔ لوگ جو آگے بڑھنے لگے تھے، آنسو جو رخساروں پر جاری ہوئے تھے، اور میرے پاس بیٹھا شخص صرف اتنا کہہ پایا: 'قربان جاؤں آپ پر آقا جان۔۔۔'
آقا نے کئی بار محبت آمیز لہجے میں فرمایا: 'بیٹھ جایئے۔'
مگر مجمع میں اتنا جوش و خروش تھا کہ کوئی بھی سکون سے بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔ حتیٰ کہ میری اپنی کیفیت بھی یہی تھی۔۔۔
اس ہیجان اور انتظار کے بیچوں بیچ، کبھی شدتِ شوق سے مسکرا پڑتا تھا تو کبھی آنکھوں سے آنسو ٹپک جاتے تھے۔
وہ جذبات جو گھل مل گئے تھے۔۔۔ ایک خوشی کے مارے ہنسی۔۔۔ اور گریہ انتظار اور بے عشقِ کی گہرائیوں سے.
ہماری رگوں میں دوڑتا خون ہمارے رہبر کے لیے تحفہ بن گیا:
'خون جو ہماری رگوں میں ہے، وہ رہبر پر قربان ہے!'
اب باری آ گئی علمدارِ دشتِ کربلا کی؛
وہ علمدار جس سے آقا کو والہانہ محبت ہے، اور جس کے بارے میں انہوں نے فرمایا: "میں ابوالفضل العباس کے پرچم کے سائے میں ہوں۔"، "اے ابوالفضل! خامنہ ای کی حفاظت فرما..."
مجمع کا جوش و خروش اتنا شدید تھا کہ (خطیب) حاج آقا عالی سے ضبط نہ ہو سکا۔ اور جناب فضائلی کے بقول "حسینیۂ امام خمینی(رح) پھٹ پڑا۔"
وجد و ہیجان کی اسی کیفیت کے دوران، (مرثیہ خواں) الحاج محمود کریمی اندر داخل ہوئے۔ انھوں نے مجمع کو دیکھا، تعریفی انداز میں ہاتھ ہلایا اور کہا: "اے میری جان۔۔۔"
انھوں اپنے قدم تیز تر کر دیئے اور آقا کی طرف بڑھے؛
عینک اور کاغذات بھی چھوڑ دیئے، اور اس بچے کی طرح ـ جو کئی برسوں سے ماں باپ کی آغوش سے دور رہا ہے ـ رہبر کی آغوش میں جا پناہ لی۔
کون سی پناہ گاہ ان کی آغوش سے زیادہ محفوظ ہو سکتی ہے؟
میں تقریب کے آغاز سے آخر تک اپنی آنکھیں آقا پر مرکوز رکھی ہوئی تھیں۔
اگرچہ فوٹوگرافر اکثر میری آنکھوں کے سامنے آجاتے تھے، مگر میں نے ایک کونا ڈھونڈ لیا جہاں سے ایک دریچہ کھلا رہے اور آقا کی نظروں کی روشنی براہ راست میرے جان پر پڑی رہے۔
کبھی دیکھتا تھا کہ کہ آقا، الحاج محمود کریمی سے کچھ فرما رہے ہیں؛
ان کی آواز اس خاموش فضا میں ہلکی سی ہوا جھونک کی مانند میری سماعتوں تک پہنچ پاتنی تھی، مگر اس کا مطلب صرف دل ہی سمجھ سکتا تھا...
خطیب نے حضرت عبداللہ ابن حسن (علیہ السلام) کی شہادت بیان کی جس کے بعد مجلس کی ذمہ داری الحاج محمود کو سونپ دی گئی۔
الحاج محمود نے ایک ایسی خبر سنائی جس نے دلوں کو منور کر دیا؛
انہوں نے کہا: "آقا نے فرمایا ہے کہ اگر تم تھک نہیں جاتے ہو تو نظم ’اے ایران، ایران...‘ پڑھو۔"
اور انہوں نے جواب دیا: "ہم آپ کے لئے مرنے کو تیار ہیں، علیؑ کی قسم... سچ کہتا ہوں، علیؑ کی قسم، ہم آپ کے لئے مرنے کو تیار ہیں آقا جان..."
وہ نظم جو ان مجالس کے پہلے دن جوش وکے ساتھ پڑھی گئی تھی، اس عاشورا کی رات روحوں میں اتر گئی۔
اور مجھے پھر بھی صہیونی ذرآئع ابلاغا کے جھوٹ یاد آئے جو کہتے تھے کہ "آقا ڈر گئے ہیں اور پناہ گاہ میں ہیں"۔
کون سی پناہ گاہ؟ کون سا خوف؟ کون ہے جو خوف کے مارے پناہ گاہ میں بیٹھ کر مداحوں اور مرثیہ خوانوں کے نوحے اور شاعری سن سکتا ہے، اسے یاد رکھ سکتا ہے اور دس دن بعد اس مرثیہ خواں سے کہہ سکتا ہے کہ اس نظم کو پڑھ لو؟
آقا، اشک بار آنکھوں اور عشق سے لبریز سینے کے ساتھ، حضرت ابا عبداللہ (علیہ السلام) کے لئے بھی روئے، وطن کے لئے بھی، ان معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کے لئے بھی جو بے گناہ قتل ہوئے،
اس دو ماہہ بچے کے لئے جو دنیا کو ہی نہ دیکھ سکا،
اس ماں کے لئے جو اپنا بچہ کھو گئی،
اس باپ کے لئے جو اپنے بچے کی پیدائش کے دن شہید ہؤا اور اس بچے کو اپنی سالگرہ کی موم بتی پھونک کر بجھانے کے بجائے باپ کی قبر پر موم بتی جلانا پڑی...
تقریباً چالیس منٹ تک الحاج محمود نے مجلس پڑھی اور سینہ زنی کرائی
آقا نے علوی وقار و عظمت کے ساتھ، محفل کے آخر تک وہیں قیام فرمایا، عزاداری کی اور غم میں شریک ہوئے۔
جب مجلس ختم ہوئی، تو آقا لوگوں کے درمیان تشریف لائے۔
کچھ دیر کھڑے رہے، ہاتھ ہلایا، اور سکون کے ساتھ، تشریف لے گئے...
لیکن ہماری نظریں اب بھی بند دروازے پر جمی ہوئی تھیں؛
وہ دروازہ جس کے کھلنے کا ہم مجلس کے آغاز سے انتظار کرتے رہے تھے، مگر اس بار بھی بند ہی رہا...
شاعرہ، خانم معین زادہ کے بقول میں:
شب دهم، وسط روضه... دیدمت آقا
میان گریه، چه بیاختیار خندیدم...
دسویں کی شب، مجلس کے بیچ آقا، دیکھ لیا آپ کو
رونے کے بیچ، کتنی بے اختیار مسکرائی میں...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: محمد دہقان
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ