بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ٹائمز آف لندن نے اسرائیلی فوج کے ریزرو افسر رون فائنر کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو ترتیب دیا ہے۔ گذشتہ ماہ اس نے اپنی نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے غزہ جنگ میں شرکت جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اب وہ اخلاقی طور پر جارحیت میں حصہ نہیں لے سکتا۔
فائنر، جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد 270 دنوں سے زیادہ عرصے تک اسرائیلی فوج میں سرگرم رہا، نے اس سال مئی میں غزہ بھیجے جانا والا نیا مشن قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے، اس کہنا تھا: "میں اس نہ ختم ہونے والی جنگ، شہریوں کے قتل اور قیدیوں کو نظر انداز کرنے سے خوفزدہ ہوں۔
غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں پر تنقید کرتے ہوئے، ریزروسٹ نے زور دیا: "اسرائیلی افسران اور حکمران کہتے ہیں کہ وہ انسانی تباہی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایسا نہیں۔"
فائنر نے مزید کہا: "حماس کو تباہ کرنے کا حکومت کا بیان کردہ ہدف نہ صرف حاصل نہیں ہؤا ہے، بلکہ جنگ کو صرف سیاسی عزائم کی خاطر طویل کیا جا رہا ہے۔۔۔ حماس کے پاس اسرائیلی قیدی بھی نیتن یاہو حکومت کے ہاتھوں میں ایک اوزار بن چکے ہیں تاکہ فوجی کارروائی کو جاری رکھنے کا جواز فراہم کیا جا سکے۔"
اگلے مورچوں پر تعیناتی کے احکامات کی نافرمانی کے بعد، ایک اسرائیلی فوجی عدالت نے اس کو 25 دن قید کی سزا سنائی، لیکن اس نے صرف ایک دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارا۔ ایران کے خلاف جنگ شروع ہوتے ہی فوجی جیلیں خالی ہو گئیں اور اس کو رہا کر دیا گیا۔ فائنر کا کہنا ہے کہ جیل میں وہی ایک دن اس کا پیغام پہنچانے کے لیے کافی تھا۔
وہ دوسرا ریزروسٹ ہے جس نے باضابطہ طور پر غزہ کی جنگ میں شرکت جاری رکھنے سے انکار کیا اور اس فیصلے پر اس کو قید ہونا پڑا۔
دوسری جانب، اسرائیلی فوج میں سماجی امور کے ایک ماہر نے جو کئی مہینوں سے غزہ میں ہے، ٹائمز کو بتایا: "میں نے رفح میں جو کچھ دیکھا وہ گولی مارنے، قتل کرنے اور نقل مکانی پر مجبور کرنے سے عبارت تھا۔"
اس نے زور دے کر کہا: "فوج غزہ کے لوگوں کو اب انسان نہیں سمجھتی، فوجیوں کی نظر میں غزہ کے لوگ انسان نہیں ہیں اور وہ آسانی سے ان پر گولی چلا دیتے ہیں۔"
سماجی امور کے ماہر نے ریزرو فورسز میں افرادی قوت کی قلت کے بحران کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا: "ریزرو فورسز ختم ہو رہی ہیں اور شرکت کی شرح نصف تک کم ہو گئی ہے۔"
ٹائمز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قابض فوج کے اندر مخالفت کی لہر پھیل رہی ہے۔ خاص طور پر جب سے غزہ میں اسرائیلی فوج کی ہلاکتوں کی تعداد 6000 سے تجاوز کر گئی ہے اور فوجیوں کے حوصلے شدت سے پست ہو گئے ہیں۔
ٹائمز نے لکھا: "اسرائیل کے سیاسی حلقوں میں بھی فائنر کے احتجاج پر ردعمل جاری ہے۔ رائے عامہ کا دباؤ، حکومتی پالیسیوں پر گھریلو تنقید اور جنگ جاری رکھنے کی بڑھتی ہوئی مخالفت اب نیتن یاہو حکومت کے لئے ایک سنگین چیلنج بن گئی ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ