اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق فلسطینی مندوب ریاض منصور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے جذباتی خطاب کے دوران رو پڑے، اور غزہ میں بچوں کی ’ناقابل برداشت‘ تکلیف کا ذکر کیا۔
امداد جہاز ڈوبنے کے بعد دی گئی لائف بوٹ
دوسری جانب غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ غزہ میں رہنے والے فلسطینی ’بقا‘ سے بڑھ کر اپنے مستقبل کے مستحق ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر سگرید کاگ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ جب سے غزہ میں جھڑپیں دوبارہ شروع ہوئیں ہیں، وہاں عام شہریوں کی پہلے ہی نہایت خراب حالت مزید تباہی کی جانب جا رہی ہے، یہ صورت حال انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کا صحت کا نظام ایک مسلسل فوجی مہم کے ذریعے منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے، موت فلسطینیوں کی ساتھی بن چکی ہے، یہ زندگی ہے نہ امید۔
اب جو امداد آ رہی ہے وہ جہاز ڈوبنے کے بعد دی گئی لائف بوٹ کے برابر ہے، کاگ نے خبردار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کی صورتحال بھی خطرناک راہ پر ہے، اور عالمی سطح پر آئندہ ماہ ہونے والی اعلیٰ سطح کی کانفرنس دو ریاستی حل کو زندہ کرنے کے لیے اجتماعی کارروائی کے اہم موقع فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس قبضے کے خاتمے اور دو ریاستی حل کے نفاذ کی جانب ایک ٹھوس راستہ شروع کرے، غزہ کے لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ہمدردی، یکجہتی اور حمایت کے الفاظ اپنی اصل معنویت کھو چکے ہیں۔
کاگ نے کہا کہ ہمیں لوگوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تعداد کے عادی نہیں ہونا چاہیے، یہ سب بیٹیاں، مائیں اور چھوٹے بچے ہیں جن کی زندگی برباد ہو چکی ہے، ہر ایک کا ایک نام تھا، ہر ایک کا مستقبل تھا، ہر ایک کے خواب اور آرمان تھے۔
’میں کیوں نہیں مرا؟‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کو ایک امریکی سرجن کی دل دہلا دینے والی گواہی بھی سنی، جو کچھ ہفتے پہلے غزہ سے واپس آئے تھے۔
ڈاکٹر فیروز صیدھا نے کہا کہ میں یہاں اس لیے ہوں کہ میں نے وہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھا ہے جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، خاص طور پر بچوں کے ساتھ، اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا، آپ بھی لاعلمی کا دعویٰ نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کا طبی نظام ناکام نہیں ہوا، یہ ایک مسلسل فوجی مہم کے ذریعے منظم طریقے سے تباہ کیا گیا، جو بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے، بچوں کی حفاظت کی جانی چاہیے، لیکن غزہ میں وہ حفاظتی تدابیر ختم ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹر فیروز صیدھا نے کہا کہ میرے زیادہ تر مریض چھوٹے بچے تھے، جن کے جسم دھماکوں سے ٹوٹ پھوٹ گئے اور دھات کے ٹکڑوں سے کٹے ہوئے تھے، کئی مریض جان کی بازی ہار گئے، جو بچے بچ گئے، وہ اکثر اپنی پوری فیملی کے مر جانے کا صدمہ اٹھا رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وار چلڈ الائنس کے مطابق غزہ کے تقریباً نصف بچے خودکشی کے خیالات میں مبتلا ہیں۔
امریکی ڈاکٹر نے کہا کہ وہ پوچھتے ہیں، میں اپنی بہن، ماں یا والد کے ساتھ کیوں نہیں مرا؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کون سا کونسل کا رکن کبھی 5 سال کے ایسے بچے سے ملا ہے جو زندگی سے نفرت کرتا ہو۔
نکتہ:
اقوام متحدہ جیسے مرے ہوئے ادارے میں کچھ لوگ جاگ اٹھے ہیں، جو اس سے قبل سوئے ہوئے تھے لیکن امت مسلمہ ہنوز خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے، بعض اوقات لگتا ہے کہ دو ارب مسلمانوں پر مشتمل امت میں کم از کم 90 فیصد لوگ سو نہیں رہے بلکہ دنیا سے جا چکے ہیں۔
آپ کا تبصرہ