اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | حکومت اردن نے اس فیصلے کے لئے ماحول بنانے کے لئے ابتداء میں 16 افراد کو ـ مبینہ طور پر ـ دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ لے کر حملوں کے لئے منصوبہ بندی ـ کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، اردن کے بادشاہ عبدللہ کے قریبی ذرائع نے کوئی سند و ثبوت پیش کئے بغیر ان افراد کو اخوان المسلمین کے ارکان کے طور پر متعارف کرایا لیکن ان افراد کی گرفتاری سے پہلے بھی اس ماحول سازی کے لئے سرکاری ذرائع ابلاغ اور سرکاری سکیورٹی اداروں سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اخوان المسلمین کے خلاف شدت کے ساتھ اشتعال انگیزی پر مبنی مہم چلائی تھی۔
اخوان المسلمین پر پابندی کے سلسلے میں الزام کی انگلی سعودی عرب وغیرہ وغیرہ! پر اس لئے بھی اٹھی کہ یہ پابندی ٹھیک اس وقت لگی جب عبداللہ دوئم نے سعودی سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے لئے سعودی عرب کا دورہ کیا۔
تجزیہ کاروں کے اندازوں کے مطابق، اردنی حکومت کے اس اقدام کا مقصد شاید ٹرمپ انتظامیہ کی خوشنوٹی اور اردن کے لئے امریکی امداد کی بحالی ہو، جو حال ہی میں بند ہوگئی ہے۔
سعودی عرب اور امارات ـ جنہوں نے سنہ 2013ع میں مصر کی اخوانی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی حمایت کی تھی ـ عرصۂ دراز سے اخوان المسلمین کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردن کی اخوان المسلمین سنہ 1945ع سے اردن کے بادشاہی نظام کا سہارا اور استحکام کی بنیاد کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور سنہ 1957ع کی بغاوت اور 1970ع کی [فلسطینیوں کے خلاف جنگ] میں بھی بادشاہی نظام کی حمایت کرتی رہی ہے؛ اور حال حاضر میں بھی اخوان المسلمین ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر اس ملک کے استحکام کا سبب گردانی جاتی ہے، چنانچہ اس جماعت کو کالعدم قرار دینے اور اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگانا، اردن کے اندرونی استحکام کے لئے ایک سنجیدہ خطرہ بن سکتا ہے، کیونکہ اخوان المسلمین اور اس کی سیاسی شاخ "اسلامی اقدام محاذ" کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے اور حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اس جماعت نے ایک تہائی نشستیں حاصل کی ہیں۔
نکتہ:
نکتہ یہ ہے کہ عرب حکمران کسی صورت میں بھی غاصب صہیونی ریاست کی ناراضگی مول لینے کے روادار نہیں ہیں اور چونکہ یہ ریاست عرب ممالک کے اندر صرف اخوان المسلمین کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہے چنانچہ صہیونیوں سے منسلک عرب حکومتیں اپنے لئے بھی اس کو خطرہ قرار دیتی ہیں، کہ یہ جماعت کہیں ان کے آقاؤں کو ناراض نہ کر دے؛ گوکہ اخوان المسلمین خود بھی اسرائیل کی دشمن جماعت نہیں ہے اور حالیہ ایک عشرے میں اس کی تمام سرگرمیاں اسرائیل اہداف سے ہم آہنگ رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ