22 دسمبر 2025 - 19:35
مصر-اسرائیل گیس معاہدے کا پس منظر

آخر میں، اس معاہدے کو توانائی معاہدوں میں علاقائی تاریخ کے سب سے بڑے معاہدوں میں سے ایک کے طور پر ریکارڈ کیا جا سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ ایک مثال ہے کہ گیس کا ایک معاہدہ بیک وقت ایک اقتصادی فائدہ، سیاسی اثر رسوخ کا ایک ذریعہ اور ایک لامتناہی تنازع کا منبع بھی بن سکتا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ نیتن یاہو کے ذریعے اسرائیل کے 'لوویاتھن' گیس میدان سے مصر کو تقریباً 35 ارب ڈالر مالیت کے عظیم برآمدی معاہدے کا اعلان، پہلی نظر میں عام اقتصادی خبر نظر آتا ہے؛ لیکن اعلان کے وقت، منظوری کے طریقہ کار، اعلان شدہ آمدنی کے حجم اور فریقین کی نوعیت پر غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ داستان کچھ زیادہ زیادہ ہی پیچیدہ ہے، جس میں سیاست، سلامتی، معیشت، جغرافیائی سیاسیات اور سرکاری پراپیگنڈا گڈمڈ ہو گئے ہیں۔

خفیہ مذاکرات سے سیاسی اعلان تک؛ معاہدہ کیسے وجود میں آیا؟

معاہدے کے ابتدائی مذاکرات کافی عرصہ پہلے ہو چکے تھے۔ لوویاتھن میدان کی آپریٹنگ کمپنیوں، جن میں امریکی کمپنی 'شیورون' اور اس کے اسرائیلی شراکت دار سرفہرست تھے، نے مصر کی طرف کو گیس فراہمی کے معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔ تاہم، بنیادی رکاوٹ تجارتی نوعیت نہیں بلکہ اسرائیل کے اندر سیاسی اور ضابطہ کار کے تحفظات تھے۔

امریکہ نے اس معاملے کو حتمی شکل دینے بالواسطہ کردار ادا کیا ہے؛ کیونکہ یہ معاہدہ خطے میں توانائی کی منڈی کے استحکام میں مدد دیتا ہے اور مشرقی بحیرہ روم میں امریکی مفادات سے مطابقت رکھتا ہے۔

ادھر نیتن یاہو نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک سیاسی تقریر میں اس معاہدے سے حاصل ہونے والی بھاری آمدنی پر زور دیتے ہوئے اس اس واقعے کا اعلان کیا جو در حقیقت حکومتی کارکردگی پر بڑھتی ہوئی تنقید کے جواب میں ایک اقتصادی معاہدے کو سیاسی ہتھیار میں بدلنے کی واضح کوشش تھا۔

حقیقی فائدہ اٹھانے والا کون ہے؟

گیس معاہدے کا ایک متنازعہ پہلو وہ اعداد و شمار ہیں جو نیتن یاہو نے پیش کئے ہیں۔ معاہدے کی کل مالیت کا تخمینہ تقریباً 35 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ یہ رقم براہ راست خزانے میں داخل ہو گی۔ آمدنی کا بڑا حصہ آپریٹنگ کمپنیوں، ترقیاتی منصوبوں، ڈرلنگ اور نقل و حمل پر خرچ ہو گا، اس کے علاوہ ٹیکسز اور رائلٹیز جن کی اصل رقم عالمی گیس کی قیمتوں پر منحصر ہو کر بدلتی رہے گی۔

معاہدے کی طویل مدت (تقریباً 2040 تک) آمدنی کئی سالوں میں تقسیم ہوگی؛ اور یہ مسئلہ فوری مالیاتی اثرات کو، حکومتی پراپیگنڈے کے برعکس، کم کر دے گا۔ اس کے برعکس، معاہدے کے ناقدین کا خیال ہے کہ ریاست نے گھریلو منڈی کی حفاظت کے لئے کافی ضمانتیں فراہم نہیں کی ہیں اور گیس کی بڑی مقدار کی برآمدات ملکی رسد کو کم کر سکتی ہیں یا صارفین کے لئے گیس کی اونچی قیمتوں کے برقرار رہنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

مصر کیوں؟

اس معاہدے میں مرکزی شریک کے طور پر مصر کا انتخاب اتفاقی نہیں ہے۔ قاہرہ کے پاس گیس کو مائع بنانے (لیکوئیفائی کرنے) کا جدید بنیادی ڈھانچہ موجود ہے جو اسے یورپ کو گیس دوبارہ برآمد کرنے کے لئے ایک مثالی دروازہ بنا دیتا ہے۔ یہ معاہدہ مصر کی حیثیت کو ایک علاقائی توانائی مرکز کے طور پر مضبوط کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو ایک قسم کا بالواسطہ فائدہ بھی پہنچاتا ہے؛ کیونکہ مصر کی توانائی کی سلامتی کا ایک حصہ اسرائیل کے ساحلی میدانوں سے گیس کی فراہمی سے وابستہ ہو جاتا ہے۔

اثر رسوخ کا ذریعہ کے طور پر گیس

گیس معاہدے کو مشرقی بحیرہ روم کی سلامتی کے منظر نامے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ گیس کے میدان اور پائپ لائنز کو انتہائی حساس تزویراتی سہولیات میں شمار کیا جاتا ہے اور خطے میں کشیدگی میں کسی قسم کی اضافہ ان سہولیات کو ممکنہ ہدف بنا سکتا ہے۔ اسرائیل، جس نے اپنے ساحلی میدانوں کی ترقی پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، مجبور ہے کہ وہ اپنے حفاظتی اقدامات کو مضبوط کرے۔ سلامتی کا یہ پہلو ایک پوشیدہ لاگت رکھتا ہے جو سرکاری بیانات میں شاذ و نادر ہی زیر بحث آتی ہے۔

دوسری طرف گیس کی برآمدات ـ خطے میں اتحاد کو مضبوط کرنے اور ممالک کے مفادات کو اسرائیل کے استحکام سے جوڑنے کے ایک آلے کے طور پر ـ کام کرتی ہیں۔ لیکن اقتصادی مفادات پر بننے والے اتحاد سیاسی معادلوں میں تبدیلی کی صورت میں جلدی تبدیل ہو سکتے ہیں۔

مخالفت کی صدائیں اور جواب کے منتظر سوالات

اسرائیل کے اندر اس معاہدے کے بہت سے مخالفین ہیں۔ مخالف جماعتوں اور پارلیمانی کمیٹیوں نے معاہدے کی مکمل تفصیلات جاری کرنے اور اس پر وسیع نگرانی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خدشات ہیں کہ گیس سے ہونے والی آمدنی حکومت کے ہاتھ میں ایک سیاسی ہتھیار بن جائے گی، نہ کہ ایک طویل المدتی اور مربوط اقتصادی پالیسی کا حصہ۔ ماحولیاتی کارکنوں نے بھی اس معاہدے کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ گیس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی میں تاخیر کا باعث بنے گی۔

خلاصہ یہ کہ ایسے حال میں کہ اسرائیلی ریاست زور دیتی ہے کہ یہ معاہدہ ریاست اور شہریوں کے فائدے میں ہے، شفافیت، آمدنی کی تقسیم، گھریلو منڈی کی حفاظت اور ماحولیاتی نتائج سے متعلق سوالات اب بھی جواب کے منتظر ہیں۔

آخر میں، اس معاہدے کو توانائی معاہدوں میں علاقائی تاریخ کے سب سے بڑے معاہدوں میں سے ایک کے طور پر ریکارڈ کیا جا سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ ایک مثال ہے کہ گیس کا ایک معاہدہ بیک وقت ایک اقتصادی فائدہ، سیاسی اثر رسوخ کا ایک ذریعہ اور ایک لامتناہی تنازع کا منبع بھی بن سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha