11 نومبر 2025 - 07:12
مآخذ: ڈان نیوز
’زہران ممدانی کی جیت نے ثابت کیا کہ اسرائیل کی حمایت سے امریکی تنگ آچکے ہیں‘

یہ فتح مکمل طور پر غیر متوقع تو نہیں تھی لیکن یہ تاریخی ضرور تھی۔ کچھ عرصے سے سروے ظاہر کر رہے تھے کہ زہران ممدانی جو جنوبی ایشیائی نژاد مسلمان تارک وطن ہیں، نیویارک سٹی کے میئر کے انتخاب میں سبقت لیے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کی جیت یقینی نہیں تھی کیونکہ ماہرین کا خیال تھا کہ عمر رسیدہ ووٹرز کی معمول سے زیادہ تعداد جو اینڈریو کومو کی حمایت کرتی تھی، نتائج کو پلٹ سکتی ہے۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور 4 نومبر کی رات امریکا کے سب سے بڑے شہر نے پہلی مرتبہ ایک مسلمان میئر منتخب کیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ڈیموکریٹس کے لیے خصوصاً ترقی پسند ڈیموکریٹس جنہوں نے اپنی پارٹی کی غزہ میں نسل کشی کی خاموش حمایت کی، آئس (امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ) کے چھاپوں پر بے عملی اور مہنگائی کے مسئلے پر حقیقی حل نہ دینے پر مایوسی ظاہر کی تھی، یہ فتح ایک طرح سے ان کے مؤقف کو رد کرتی ہے۔ زہران ممدانی جن کے خلاف 20 سے زائد ارب پتیوں نے لاکھوں ڈالر جھونک دیے، انہوں نے بتایا کہ پارٹی کی اصل توانائی کہاں موجود ہے۔

جین زی کے ووٹر بڑی تعداد میں باہر نکلے اور زہران ممدانی کو ووٹ دیا۔ آخرکار برسوں تک ہیلری کلنٹن اور چَک شومر جیسے رہنماؤں کے پسندیدہ ’سینٹر ازم‘ کے نمائندوں کے بعد، ایک ایسا شخص سامنے آیا جو پارٹی کے عام ووٹر کی زبان بولتا تھا۔ ان کی فتح کے فرق نے یہ واضح کر دیا کہ ڈیموکریٹک قیادت کس قدر غلط فہمی میں مبتلا تھی۔

اصل کہانی دراصل تارکین وطن اور مسلمانوں کی بھی ہے۔ نیویارک وہ شہر ہے جو 9/11 کی یاد کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ جسے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں نے دنیا بھر میں جنگیں شروع کرنے اور ان کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے جواز کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ یوں اسلاموفوبیا (اسلام دشمنی) کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

دو دہائیوں سے زائد عرصے تک 9/11 کی یاد کو نیویارک کے سیاستدانوں نے نسلی امتیاز اور مسلمانوں کے خلاف کھلے عام کارروائیوں کے جواز کے طور پر استعمال کیا حتیٰ کہ ان افراد کے خلاف بھی جو صرف ’مسلمان جیسے‘ نظر آتے تھے۔ مشتبہ سیکیورٹی وجوہات اور بغیر ثبوت کے ممکنہ حملوں کے بہانے بنا کر مسلم مردوں اور عورتوں کو خوفزدہ کیا گیا۔ ایف بی آئی اور نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ (این وائی پی ڈی) کے ایجنٹس کو مساجد میں گھسنے کے لیے بھیجا گیا، مسلمانوں پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے خلاف مخبری کریں۔

جب کسی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ پیش کیا گیا تو اسے شدید اسلام دشمنی کا سامنا کرنا پڑا، شہر کے بعض یہودی-امریکی گروہوں کی طرف سے بھی جنہوں نے 9/11 کے واقعے کو مسلمانوں کے سماجی و مذہبی اعتبار کو دیوار سے لگانے کے لیے استعمال کیا۔

یہ بات زہران ممدانی کی جیت کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نیویارک سٹی، اسرائیل کے باہر دنیا کا سب سے بڑا یہودی شہر ہے۔ بہت سے لوگ یہ سوچتے تھے کہ غزہ میں جاری نسل کشی اور زہران ممدانی کی فلسطینیوں کے لیے کھلی حمایت کے پس منظر میں ایسی کامیابی ممکن نہیں ہوگی۔

اگرچہ یہودی برادری کے ایک بڑے حصے نے ان کے خلاف ووٹ دیا جیسا کہ ایگزٹ پولز کے مطابق روسی نژاد یہودی خاص طور پر زہران ممدانی کے خلاف منظم تھے لیکن قابلِ ذکر تعداد میں نوجوان امریکی یہودیوں نے ان کے حق میں ووٹ ڈالا۔ بوڑھے امریکی یہودیوں کے برعکس جن میں اکثریت صہیونی نظریات رکھتی ہے اور وہ اسرائیل پر تنقید کو یہود دشمنی سمجھتے ہیں، نوجوان امریکی یہودی زیادہ باریک بین اور متوازن نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔

یہ بات یقیناً اسرائیل کے لیے تشویش کا باعث ہوگی کیونکہ اس کی لابی ایپیک (AIPAC) امریکا میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے امیدواروں کو ان کی حمایت کے بدلے مالی مدد فراہم کرتی ہے۔ نیویارک سٹی کے میئر کے انتخابی مباحثے میں، زہران ممدانی واحد امیدوار تھے جنہوں نے صاف کہا کہ انہیں جیتنے کے بعد اسرائیل کا دورہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں اور وہ اس کے بجائے نیویارک ہی میں رہنا پسند کریں گے۔

دیگر امیدواروں نے اس مؤقف پر ان پر سخت تنقید کی مگر زہران اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور بالآخر وہی کامیاب ہوئے۔ یہ صورت حال یقیناً لابیز کے لیے پریشان کن ہے جو شاید اب سوچ رہی ہوں گی کہ کہیں امریکی سیاستدان یہ احساس تو نہیں کرنے لگے کہ عوام اپنے رہنماؤں کی اسرائیل نوازی سے تنگ آ چکے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ خود اپنے کرائے یا کھانے کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

نیویارک سے باہر بھی ڈیموکریٹس نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں جسے آئندہ سال ہونے والے امریکا کے مڈٹرم انتخابات کے ایک واضح پیش منظر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ووٹرز نے ری پبلکنز اور بالواسطہ طور پر ٹرمپ کے ایجنڈے کے خلاف نمایاں اکثریت سے ووٹ دیا حتیٰ کہ کمزور یا غیر متاثر کن ڈیموکریٹ امیدوار بھی جیتنے میں کامیاب رہے۔

یہ خبر اُن تمام امریکیوں کے لیے خوش آئند ہے جو اس سال کے آغاز سے حکومت کے اندر جاری کمزوری اور انتشار کو دیکھ رہے تھے۔ عام طور پر صدور کو عوام کی ناپسندیدگی سے پہلے کچھ وقت مل جاتا ہے مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔

جہاں تک تارکینِ وطن اور مسلمانوں کا تعلق ہے تو خوشخبری صرف نیویارک سٹی تک محدود نہیں تھی۔ ورجینیا نے بھارتی نژاد امریکی غزالہ ہاشمی کو اپنی پہلی مسلم امریکی خاتون لیفٹیننٹ گورنر کے طور پر منتخب کیا ہے۔ اسی طرح، ڈیئر بورن (Dearborn)، مشی گن اور ڈیئر بورن ہائٹس (Dearborn Heights) کے شہروں میں بھی مسلمان میئر منتخب ہوئے۔

زہران ممدانی کی عمر صرف 9 سال تھی جب 9/11 کے واقعات پیش آئے۔ ان کی والدہ میرا نائر جو ایک آسکر نامزد فلم ساز ہیں اور ان کے والد محمود ممدانی جو نوآبادیاتی دور کے بعد کے مطالعے کے ممتاز ماہر ہیں، شاید کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ بچہ جو اس وقت ایک ایسے شہر میں ایک مسلمان طالبِ علم تھا جو اچانک مسلمانوں سے محتاط ہونے لگا تھا، ایک دن نیویارک کا پچھلے 100 برسوں میں سب سے کم عمر میئر بن جائے گا۔

مگر معجزے ہوتے ہیں اور تاریخ کی گردش یہ سکھاتی ہے کہ جسے کبھی معاشرہ ’غیر‘ یا ’اچھوت‘ سمجھتا ہے، وہی ایک دن رہنما بن کر ابھر سکتا ہے۔ زہران ممدانی کی کہانی اُن تمام لوگوں کے لیے سبق اور ترغیب ہے جنہوں نے کبھی بہتر وقت آنے کی امید چھوڑ دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: رافعہ ذکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha