بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || تاریخ نے بارہا ثابت کرکے دکھایا ہے کہ طاقت کا حد سے زیادہ استعمال، ـ چاہے عارضی طور پر زیادہ کنٹرول کا سبب بنے اور عملی یا فوری فوائد کے حصول میں معاون ہو، لیکن ـ طویل مدت میں اعتماد، قانونیت، بقاء، استحکام اور حقیقی قوت و صلاحیت کو فرسودہ کر دیتا ہے۔
یہ تاریخِ سیاست کا ایک غیر تحریری لیکن بار بار دہرایا جانے والا اصول ہے۔ ایک ایسا اصول جو آج پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ آج اس حقیقت کی مثالیں دنیا کے دونوں کناروں پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
صہیونی ریاست غزہ اور مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی طاقت اور دباؤ کے ذرائع پر حد سے زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہ نقطہ نظر اگرچہ فوری طور پر عملی برتری پیدا کر سکتا ہے، لیکن اس کا کمر توڑ دینے والا بوجھ عالمی رائے عامہ اور حتیٰ کہ اس ریاست کی طویل مدتی سلامتی پر آہستہ آہستہ نمایاں ہو جائے گا۔
جو چیز آج ظاہری طور پر 'طاقت' دکھائی دیتی ہے، درحقیقت اس نے اس کا سیاسی سرمایہ مفلوج کر دیا ہے اور اس کی بین الاقوامی پوزیشن میں نئی دراڑیں ڈال دی ہیں۔ یہی وہ طاقت ہے جو تحفظ پیدا کرنے کے بجائے خود عدم استحکام کا ذریعہ بن گئی ہے۔
دوسری طرف، ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی طاقت کے ذرائع کا حد سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے، خارجہ پالیسی میں بھی اور اندرونی معاملات میں بھی، سیاسی سرمائے کی اس فرسودگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حدود اور نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلسل دباؤ اور طاقت کے مظاہرے پر انحصار نے، گہری دراڑیں اور بے اعتمادی کی ایک میراث قائم کی ہے جس کے اثرات برسوں تک امریکی سیاست پر محسوس ہوں گے۔
ٹرمپ اپنی دوسری مدت صدارت کے پہلے سال میں امریکہ کی پرانی دھونس کی پالیسی کو اس بار زیادہ کھلم کھلا اور بے نقاب انداز میں اپنا رہے ہیں۔ لیکن اس وقت جبکہ امریکہ کو کئی تہہ در تہہ بحرانوں کا سامنا ہے، ٹرمپ کا دھونس دھمکی، دباؤ اور طاقت کے مظاہرے پر حد سے زیادہ انحصار نہ تو اس ملک لئے کوئی کامیابی لا سکا ہے اور نہ ہی امریکہ کی عالمی بالادستی کو بحال کر سکا ہے۔
یوکرین، چین، تائیوان، ایران اور غزہ جیسے معاملات میں مسلسل ناکامیاں، نیز وینزویلا کے خلاف "جنوبی نیزہ" آپریشن پر لاطینی امریکی ممالک کے منفی ردعمل نے ثابت کیا ہے کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے۔
ٹرمپ کا دھمکی، پابندی اور دباؤ پر حد سے زیادہ انحصار نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا بلکہ اس نے امریکہ کے وقار اور اثر و رسوخ میں کمی کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔
صہیونی ریاست اور ٹرمپ دونوں ایک ہی تزویراتی غلطی کا شکار ہیں، یعنی طاقت کا لاپروائی کے ساتھ بے تحاشا استعمال۔ وہ طاقت جسے سنبھالا نہیں جاتا بلکہ اس کی نمائش لگائی جاتی ہے؛ اور جو استحکام پیدا کرنے کے بجائے بحران اور عدم استحکام پیدا کرنے پر خرچ ہوتی ہے۔ اور جو قانونیت کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے ختم کر دیتی ہے۔
سیاست کا قانون واضح ہے: جب بھی طاقت عقل کے دائرے سے باہر نکل کر حد سے گذرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے، تو وہ مستقبل کی کمزوری اور زدپذیری کا بیج آج ہی بو دیتی ہے۔
قائدین اور قومیں اس سادہ لیکن بنیادی حقیقت کو نہیں بھولیں کہ "کوئی طاقت، چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اپنی ہی پیدا کردہ فرسودگی کے سامنے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔"
آج کی نمائشی کامیابیاں، اگر بے بنیاد اور بے لگام طاقت پر انحصار کریں، تو کل بہت بڑے نقصانات کا باعث بنیں گی۔
طاقت جب بھی ظلم و زیادتی اور زیادہ روی کی طرف مڑتی ہے تو وہ ایک ایسی قوت کو کے بیج بو دیتی ہے جو ایک دن پلٹ کر اسی [طاقت] پر غلبہ پا ئے گی۔ اندھا دھند استعمال ہونے والی طاقت جلد یا بدیر خود ہی کو نگل لے گی اور کھا جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ صدائے ایران کا اداریہ نمبر 147۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ