اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ||
1۔ "سنجیدہ" اور حقیقی عناصر:
ذاتی اور تاریخی مسئلہ:
ایک ایسے شخص کے طور پر، جو ذاتی اور سیاسی طور پر اپنی شناخت ایک "اسلام پسند" کے طور پر کراتے ہیں، اردوان فلسطین اور قدس شریف کے مسئلے کو اسلامی دنیا پر اثر انداز ہونے کے ایک آلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کی سیاسی شناخت کا حصہ ہے۔


نرم طاقت کا اوزار اور علاقائی قیادت:
فلسطین کا دفاع اسلامی دنیا کی حقیقی اور علامتی قیادت کے لئے سعودی عرب، مصر اور ایران سے مسابقت کے ترکیہ کا سب سے اہم ہتھیار ہے۔ یہ انقرہ کے لئے بہت بڑا سیاسی اثاثہ ہے۔
اثر و رسوخ:
حماس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے اور اسرائیل کے ساتھ ایک مواصلاتی چینل کے ذریعے، ترکیہ خود کو ایک ناگزیر ثالث طاقت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ انقرہ یہ کردار ادا کرکے ترکیہ کی بین الاقوامی پوزیشن کو مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
2۔ عارضی اور 'غیر سنجیدہ' عناصر
نظریئے پر قومی مفادات کو ترجیح دینا:
جب ترکیہ کے اقتصادی اور سلامتی کے مفادات سامنے ہوں تو فلسطینی کاز کے بارے میں اس کا موقف تیزی سے کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال غزہ میں اسرائیل کی طرف سے پیدا ہونے والی انسانی تباہی کے دوران اسرائیل کے ساتھ تجارت کا تسلسل ہے؛ واضح رہے کہ حتیٰ کہ اس دوران ترکیہ اور اسرائیل کے تجارتی تبادلوں میں اضافہ بھی ریکارڈ ہؤا ہے؛ اور ترکیہ کی برآمدات میں فوجی سازوسامان کا اضافہ بھی ہؤا ہے۔


حماس کے ساتھ تعلقات کی غیر یقینی صورتحال:
حماس کے لئے ترکیہ کی حمایت ایران جیسے گہرے نظریاتی اتحاد سے زیادہ تزویراتی اور (مواقعاتی، حالات کے تابع) تعاون ہے۔ انقرہ حماس کو ایک لیور کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ وہ اسرائیل کے حق میں تیز دھار نہ ہو اور یوں اسرائیل پر مقاومت کا دباؤ کم کر سکے اور دوسری طرف سے اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے۔
فیصلہ کن اور مربوط اقدام کا فقدان:
ایران کے برعکس، جو اسرائیل کے بدنیتی پر مبنی، توسیع پسندانہ اور جنگ بھڑکانے والے خبیثانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے سفارتی وسائل اور اوزاروں کو متحرک کرتا ہے، ترکیہ کی پالیسی واضح تضادات سے بھرپور ہے (مثلاً سخت نعرے، اور اسرائیل کے لئے اسٹیل، تیل اور دھماکہ خیز مواد کی برآمدات جاری رکھنا)
ایرانی موقف کے ساتھ حتمی موازنہ:
ایران کا موقف ایک طے شدہ نظریے پر مبنی ہے، جو یقیناً حکمت عملی (Tactics) میں لچکدار ہے، اور جس کے لئے اسے پابندیوں اور اسرائیل کے اتحادیوں کی جانب سے خود کو الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کی "بھاری قیمت" ادا کرنا پڑتی ہے۔ اتفاق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیلی ریاست اس کے مغربی اور عرب اتحادیوں کی جارحیت کا مقصد ملک کی تقسیم تھی جس سے عیاں اور ثابت ہؤا کہ ہمیں ایک ایسے مہلک اور سرطانی ناسور کا سامنا ہے جو صرف طاقت اور پرتشدد تصادم کی زبان کو سمجھتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران میں ان تمام سالوں کے دوران اس وجودی دشمن کے خلاف خود کو طاقتور بنانے کی کوشش بالکل درست اور قانون، عقل اور قومی مفادات کے عین مطابق رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ