اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، لبنانی صدر جوزف عون نے واضح کیا ہے کہ حکومت حزب اللہ کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ صرف اس کے اسلحے کو محدود کرنے اور اس کے اثر کو کم کرنے کی پالیسی اپنائے گی۔ یہ موقف واشنگٹن اور تل ابیب کے اس مطالبے کے خلاف ہے جس میں حزب اللہ کے مکمل خلعِ سلاح پر زور دیا گیا تھا۔
امریکی تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ جوزف عون کا یہ فیصلہ امریکہ، فرانس اور سعودی عرب جیسے بین الاقوامی ضامنوں سے مشاورت کے بغیر کیا گیا، اور یہ اقدام اُن وعدوں کے خلاف ہے جو انہوں نے صدارت سنبھالتے وقت دیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق، عون نے ابتدا میں بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد اور مسلح گروہوں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، مگر اب وہ اندرونی سیاسی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ملک کسی نئے تصادم کا شکار نہ ہو۔
تھنک ٹینک نے مزید کہا کہ نومبر 2024 میں ہونے والی جنگ بندی اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1701 کے تحت طے پائی تھی، جس میں حزب اللہ کے خلعِ سلاح اور اسرائیل کی لبنانی علاقوں سے واپسی کی شرط رکھی گئی تھی۔ لیکن حزب اللہ نے نہ تو اپنے ہتھیار جمع کروائے اور نہ ہی انہیں لبنانی فوج کے حوالے کیا بلکہ اپنی عسکری صلاحیت میں مزید اضافہ کر لیا، جس سے اسرائیل میں تشویش پیدا ہو گئی۔
رپورٹ کے مطابق، اسرائیل اس وقت حزب اللہ کو دوبارہ جنگ سے پہلے کی عسکری قوت حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، صدر جوزف عون، جو ماضی میں لبنانی فوج کے سربراہ رہ چکے ہیں، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حزب اللہ کو جبراً غیر مسلح کرنے کی کوشش ملک میں خانہ جنگی کو جنم دے سکتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے ایک متبادل منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد حزب اللہ کے اسلحے کو ’’منجمد‘‘ کرنا ہے — یعنی اسے استعمال سے روک کر سیاسی توازن برقرار رکھا جائے۔ اس منصوبے کی طرز غزہ ماڈل سے ملتی ہے، جہاں حماس نے اپنے عسکری ڈھانچے کو ’’داخلی سلامتی فورس‘‘ کے نام سے برقرار رکھا۔
تاہم، اسرائیل نواز حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ لبنان، غزہ نہیں ہے، اور اگر عون نے یہی ماڈل اپنایا تو اسرائیل لبنان کے پانچ سرحدی پہاڑی علاقوں پر اپنے فوجی کنٹرول کو ’’مستقل‘‘ قرار دے سکتا ہے۔
بیروت کا موقف ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے بہانے لبنانی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے، اور وہ چاہتا ہے کہ تل ابیب فوری طور پر ان علاقوں سے فوجی انخلا کرے اور لبنان کی خودمختاری کا احترام کرے۔
رپورٹ کے اختتام میں فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز نے لبنانی حکومت کے مؤقف کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے نزدیک ’’عملی حقیقت‘‘ یہ ہے کہ لبنان کو اپنی خودمختاری کے مطالبات اس وقت تک موخر کرنے چاہئیں جب تک وہ حزب اللہ کو مکمل طور پر غیر مسلح نہ کر دے، ورنہ اسے اسرائیلی مداخلت قبول کرنا ہوگی۔
یہ تجزیہ دراصل لبنان کی موجودہ پالیسی کو اسرائیلی فوجی کارروائی کے لیے ایک جواز کے طور پر پیش کرتا ہے — ایسا جواز جسے بیروت نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے اپنی ملکی خودمختاری اور قومی وحدت کے تحفظ کا عزم دہرایا ہے۔
آپ کا تبصرہ