بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || 12 روزہ مسلط کردہ جنگ اور اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکہ اور صہیونی ریاست کی منظم جارحیت کے واقعے کے بعد، مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈروں کے بیانات دفاعی طاقت کی تعمیر نو اور ترقی پر پختہ عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ جارحیت، دفاعی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات کے باوجود، عملی طور پر ایران کی دفاعی عظمت کی اسٹراٹیجک تعمیر نو اور ہمہ جہت ترقی کا سنگ میل بن گئی۔
ایران نے اس نازک موڑ پر، نہ صرف نقصانات کی مرمت کا عمل تیزی سے شروع کیا، بلکہ دفاعی تصورات کے ازسرنو جائزے اور جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال کے ذریعے ماضی سے بڑھ کر طاقت حاصل کرنے کی طرف رخ کیا۔
بیلسٹک میزائل، خرمشہر - 5
کہا جاتا ہے ہے کہ یہ ایک آئی سی بی ایم میزائل ہے
تزویراتی نقطہ نظر سے، یہ واضح ہے کہ جو ملک کافی دفاعی اور تسدیدی صلاحیت (Deterrence capability) نہیں رکھتا، وہ زدپذیری (Vulnerability) سے دوچار ہو جاتا ہے اور دوسرے ممالک کا رویہ اور نقطہ نظر اس پر اثر انداز ہونے لگتا ہے؛ لیکن جو ملک دفاعی طاقت اور قوت کا مالک ہو، نہ صرف کم ہی جارحیت کا نشانہ بنتا ہے، بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی تعاملات اور حساب کتاب اس کے حوالے سے تبدیل ہو جاتے ہیں اور بیرونی فریق اپنی حکمت عملیوں کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں؛ [اور اگر دشمن ممالک ہوں تو سازشوں میں آضافہ کرتے ہوں اور اگر تزویراتی شرکاء ہوں تو اسے پر اعتماد کرنے میں ہچکچا جاتے ہیں۔]
یہ حقیقت 12 روزہ مقدس دفاع کے بعد فوجی قوت کی تعمیر نو اور مضبوطی کے مرکزی محرکات میں سے ایک تھی۔
ایران کی مسلح افواج طاقت کی تعمیر نو کے مرحلے میں
رہبر معظم اور کمانڈر انچیف امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے کے معاون اور مشیر اعلیٰ میجر جنرل سید یحییٰ رحیم صفوی نے 12 روزہ جنگ کے بعد تعمیر نو کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "عسکری پہلو میں، اس 12 روزہ جنگ کے بعد کے گذشتہ چند مہینوں کے دوران خدا کے فضل سے ہم نقصان سے دوچار مقامات کی تعمیر نو کر رہے ہیں۔"
ICBM
انھوں نے مزید کہا: "ہمارے فضائی دفاع، ریڈار سسٹم، میزائل کی صلاحیتوں کا ایک حصہ اور ہماری فضائیہ کے کچھ حصے متاثر ہوئے؛ لیکن جیسا کہ جنگ میں ہوتا ہے، مخالف فریق حملہ کرتا ہے اور ہم جواب دیتے ہیں، اس مختصر عرصے میں رہبر معظم کی جانب سے نئی تقرریوں اور اقدامات کے ساتھ، طاقت کی تعمیر نو کا عمل جاری ہے۔"
میجر جنرل صفوی نے کہا: "ہم دفاعی اور جارحانہ صلاحیتوں کی تعمیر نو کر رہے ہیں؛ جارحانہ طاقت میں اضافہ نہ صرف فضائی اور خلائی میدان میں بلکہ تمام شعبوں میں، پر مدنظر ہے۔ جو معلوماتی کمزوریاں موجود تھیں وہ بھی دور کی جا رہی ہیں۔"
ایران کے دشمنوں کے مقابلے میں "فعال دفاع" کی حکمت عملی اپنائی گئی
ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جنگ کے بعد ایران کی دفاعی صلاحیت کی تعمیر نو محض مادی نقصانات کی مرمت تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ رجحان ایک وسیع تر نقطہ نظر کے ساتھ، نظاموں کی بنیادی اپ ڈیٹ، کمانڈ اور کنٹرول کے ڈھانچوں میں اصلاحات، اور تمام شعبوں میں جارحانہ صلاحیتوں کی ترقی پر مشتمل ہے۔
ایران اس نکتے کو سمجھتے ہوئے ـ کہ جدید خطرات روایتی حملوں سے بالاتر ہیں، ـ ذہین دفاع، سائبر صلاحیت اور الیکٹرانک جنگ کی طرف آگے بڑھا ہے۔
اس سلسلے میں، دفاعی تعمیر نو اور ترقی کے لئے ایران کا نقطہ نظر محض رد عمل کے طور پر نہیں بلکہ اسٹراٹیجک ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ خطرات کا جواب دینے کے علاوہ، وہ علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے شعبے میں ایک نیا اور پائیدار فارمولا قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ نقطہ نظر "فعال دفاع" کی عکاسی کرتا ہے، جس میں دفاعی اور جارحانہ صلاحیتیں ایک ساتھ، اور ایک دوسرے کے ساتھ تعامل میں، ترقی پاتی ہیں تاکہ سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دشمن کو باز رکھنے کا ایک مضبوط پیغام بھیجا جا سکے۔
ایران کی بحری جنگی صلاحیت مستقبل میں ممکنہ جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار
مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف، میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی، نے سپاہ پاسداران کی بحریہ کی جنگی صلاحیتوں کا معائنہ کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ "آج کی صورتحال کا اس دور کے ساتھ موازنہ ـ جب شہید چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل پاسدار محمد باقری نے جنگ سے پہلے اس فورس کا معائنہ کیا تھا، ـ ظاہر کرتا ہے کہ سپاہ پاسداران کی بحریہ اپنی صلاحیت اور جنگی تیاریوں کو ناقابل یقین تیزرفتاری سے بہتر بنا رہی ہے۔"
شہید چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل پاسدار محمد باقری
چیف آف جنرل اسٹاف کے مطابق، سپاہ پاسداران کی بحریہ آج تیاری کے اس سطح پر ہے کہ وہ مستقبل میں کسی بھی ممکنہ تصادم میں ملکی سلامتی کے دفاع، مسلح افواج کی حمایت اور مقدس اسلامی جمہوری نظام کے تحفظ کے لئے عظیم مشنز سرانجام دے سکتی ہے۔
میجر جنرل موسوی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی ملٹری کی بحریہ کے معائنے کے دوران بھی کہا: "آج جب کہ اس وقت سے تقریباً تین ماہ گذر چکے ہیں، جب ہم بحریہ کی تیاریوں کی موجودہ سطح اور ممکنہ تصادم سے نمٹنے کے لئے اس کی تیاریوں کو دیکھتے ہیں، تو 12 روزہ مقدس دفاع کے تجربات کی روشنی میں بحریہ میں اچھی خاصی بہتری آئی ہے اور اس فورس میں میرے ساتھی ایران کے خبیث دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔"
کمانڈرز ایران کی دفاعی صلاحیتوں کی تعمیر نو اور ترقی کے میدان میں
بارہ روزہ دفاع مقدس کے بعد کے عسکری رجحانات، ایران کی دفاعی صلاحیت میں کئی کلیدی محوروں کو نمایاں کر دیتے ہیں: فضائی دفاعی نظامات کی تعمیر نو اور ترقی، میزائل کی صلاحیت میں توسیع، مصنوعی ذہانت، سائبر وارفیئر اور الیکٹرانک وارفیئر جیسی جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال کے ذریعے میدان جنگ کو ذہین بنانا، معلوماتی کمزوریوں کو دور کرنا، اور فضائیہ کی صلاحیت کے میدان میں مختلف کوششیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ تزویراتی اقدامات جدید جنگوں کی پیچیدگیوں اور ذہین اور کثیر جہتی دفاعی صلاحیت کی طرف بڑھنے کی ضرورت کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈروں کی حقیقی سمجھ بوجھ کا نتیجہ ہیں۔
بارہ روزہ مقدس دفاع کے بعد تعمیر نو نہ صرف نقصانات کی تلافی ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کو مغربی ایشیا میں ایک آزاد اور مؤثر طاقت کے طور پر اس کے مقام کو مستحکم کرنے کی جانب ایک نیا عزم ہے۔
EMP رستاخیز میزائل، جس کی سرکاری ذرائع سے ہنوز تصدیق نہیں ہوئی
سیاسی اور سلامتی کے نقطہ نظر سے، یہ عمل اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وسیع نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے جس کو یقین ہے کہ پائیدار دفاعی قوت و عظمت قومی سلامتی اور آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔
بارہ روزہ مقدس دفاع کے بعد دفاعی صلاحیت کی تعمیر نو اور ترقی بیرونی دباؤ اور خطرات کے خلاف فعال مزاحمت کے قومی عزم اور حکمت عملی کی علامت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ