2 اکتوبر 2025 - 09:16
مآخذ: ابنا
غزہ امدادی بیڑے کی توقیف، یورپ میں احتجاجات اور بین الاقوامی تنقید

یورپ کے سب سے بڑے انسانی امدادی بیڑے  کو اسرائیلی فوج نے غزہ کے ساحل سے تقریباً 75 میل دور سمندر میں روک لیا ہے۔ اس اقدام کے بعد یورپ بھر میں شدید احتجاج اور عالمی سطح پر مذمت کی لہر دوڑ گئی ہے۔

اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق،یورپ کے سب سے بڑے انسانی امدادی بیڑے  کو اسرائیلی فوج نے غزہ کے ساحل سے تقریباً 75 میل دور سمندر میں روک لیا ہے۔ اس اقدام کے بعد یورپ بھر میں شدید احتجاج اور عالمی سطح پر مذمت کی لہر دوڑ گئی ہے۔اسرائیل کی بحریہ نے متعدد کشتیوں کو بین الاقوامی پانیوں میں روک کر قبضہ کر لیا ہے، جس پر عالمی برادری کی سخت تنقید اور یورپی ممالک میں عوامی احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ یہ کارروائی گزشتہ رات سے جاری ہے اور آج صبح بھی جاری رہی۔

یہ امدادی بیڑا غزہ کی ناکہ بندی کو توڑ کر وہاں کے عوام تک خوراک، دوا اور دیگر امداد پہنچانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اس بیڑے میں 50 سے زائد کشتیوں پر 500 سے زیادہ رضاکار، سیاستدان اور فعالین شامل تھے، جن میں گرتا تھنبرگ، ماندلا ماندلا اور آدا کولاؤ جیسے معروف چہرے بھی موجود تھے۔

رپورٹس کے مطابق، توقیف کا عمل 30 ستمبر کی شام شروع ہوا جب یہ کشتییں غزہ سے تقریباً 75 میل دور بین الاقوامی پانیوں میں تھیں۔ فعالین نے بتایا کہ اسرائیلی جنگی جہازوں نے کشتیوں کے نظامِ شناخت کو بند کر دیا، ان کے رابطے توڑ دیے اور خصوصی فورسز نے پانی کی توپیں اور کیمیکل گیس کے استعمال سے کشتیوں پر حملہ کیا۔ کم از کم 12 فعالین کو گرفتار کر کے بندرگاہ اشدود منتقل کیا گیا۔ ناوگان کے منتظمین نے اس عمل کو "اجتماعی اغوا" اور "سمندری قزاقی" قرار دیا ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ بیڑا حماس کی حمایت یافتہ ہے اور ان کشتیوں میں ممنوعہ اشیاء داخل ہونے کا خدشہ تھا، اس لیے توقیف ضروری تھی۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل کو بین الاقوامی بحری قوانین کی خلاف ورزی اور عالمی عدالت انصاف کی ہدایات کی کھلی پامالی قرار دیا ہے۔

یہ واقعہ اسرائیل کی طرف سے اس سال کے دوران انسانی امدادی کاروانوں کی توقیف کا تیسرا واقعہ ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، عفو بین الاقوامی اور ہیومن رائٹس واچ نے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانچسکا آلبانزے، خصوصی رپورٹنگ آفیسر برائے فلسطینی علاقوں، نے اسے سمندری قوانین کی خلاف ورزی اور غزہ میں نسل کشی کا حصہ قرار دیا ہے۔

یورپ میں اس واقعے پر سیاسی اور عوامی ردعمل شدید رہا۔ اسپین نے اسرائیل کے سفیر کو طلب کیا اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہا۔ اٹلی میں مزدور یونینوں نے ہڑتال کی کال دی اور بندرگاہوں پر ہتھیاروں کی برآمد روک دی گئی۔ فرانس میں "فرانس ناافرمان" پارٹی نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے جبکہ برطانیہ میں سول سوسائٹی نے حکومت پر شہریوں کی گرفتاری پر خاموشی اختیار کرنے کا الزام لگایا۔

اسی دوران برسلز، برلن، روم، بارسلونا، پیرس اور استنبول سمیت کئی یورپی شہروں میں ہزاروں افراد نے فلسطینی پرچم اٹھا کر اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے اور گرفتار شدگان کی فوری رہائی اور غزہ پر محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں امریکی سفارتخانے کے سامنے بھی احتجاجی مظاہرہ ہوا۔

گرتا تھنبرگ سمیت گرفتار فعالین کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں اور #SumudFlotilla اور #FreeGaza کے ہیش ٹیگز عالمی سطح پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

صمود بیڑا نے اپنی دوسری اطلاع میں کہا ہے کہ کچھ کشتیوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور گرفتاریوں کی وضاحت کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی اور غیر مسلح شہریوں پر تشدد قرار دیا ہے۔

بیڑا کی انتظامیہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گرفتار شدگان کی حفاظت اور رہائی کے لیے مداخلت کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کشتیوں کی موجودہ پوزیشن غزہ سے تقریباً 70 میل دور ہے اور وہ بغیر پیچھے ہٹے اپنی مدد کے مشن پر قائم رہیں گے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha