25 اگست 2025 - 21:33
جدہ: تاریخ، غزہ کے المناک واقعے کی مذمت میں تاخیر کو معاف نہیں کرے گی/ اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی ضرورت، وزیر خارجہ

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اسلامی تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران اسلامی ممالک کے اپنے ہم ہم منصبوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ غزہ کا سانحہ صرف مسلمانوں سے تعنق نہیں رکھتا۔ یہ عالمی ضمیر کے لئے ایک آزمائش ہے۔ چنانچہ ہم تمام قوموں سے، چاہے ان کا مذہب یا جغرافیہ کچھ بھی ہو، مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانیت، انصاف اور عزت و وقار کی سمت میں کھڑے ہوں: یعنی تاریخ کی صحیح سمت میں۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صہیونی ریاست کے جرائم کے جاری رہنے کے پیش نظر، اسلامی جمہوریہ ایران نے 4 اگست 2025ع‍ کو وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی"  کی جانب سے اسلامی تعاون کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے نام خط کے ذریعے، تنظیم کے چارٹر کے تحت، غزہ میں انسانی المیے کا جائزہ لینے کے لئے وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس بلانے کی درخواست دی تھی۔ ایران کے وزیر خارجہ کے خط کے بعد، ترکیہ اور فلسطین کے وزرائے خارجہ نے، وزارتی کونسل کے چیئرمین اور وزیر خارجہ فلسطین کی حیثیت سے، بھی سیکرٹریٹ کے ہیڈکوارٹر میں وزرائے خارجہ کی سطح پر ایک غیر معمولی اجلاس بلانے کی اسی طرح کی درخواستیں دائر کر دیں۔ اسلامی تعاون کی تنظیم میں سعودی عرب کے مستقل مشن کے اعلان کے مطابق، اعلیٰ سطحی عہدیداروں کا اجلاس اتوار 24 اگست 2025ع‍ کو اور وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس پیر 25 اگست کو منعقد ہؤا۔

سید عباس عراقچی، وزیر خارجہ نے اس اجلاس میں ایک مختصر تقریر کی، جس کا متن درج ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آج ہم ایسے لمحے میں اکٹھے ہوئے ہیں جب غزہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے سامنے ایک  چونکا دینے والے تکلیف دہ آئینے کی مانند کھڑا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے وہ محصور عوام کی منظم تباہی ہے، جو ایک بے رحم آپارتھائیڈ ریاست کی جانب سے مکمل استثنیٰ اور ہمہ جہت تحفظ کے ساتھ عمل میں لائی جا رہی ہے۔

غزہ کے لوگوں کا منصوبہ بند طریقے سے قتل عام کیا جا رہا ہے، رہائشی علاقے مکمل طور پر تباہ کر دیئے گئے ہیں، ہسپتال قبرستانوں میں بدل گئے ہیں؛ اور غزہ کے بچے ہر قسم کے انسانی معیاروں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے قحط اور شدید بھوک کا شکار ہیں۔ یہ کوئی عام جنگ نہیں ہے۔ یہ اجتماعی سزا ہے، ایک پالیسی تسلط جمانے کے لئے، اور ہاں، وہ حملہ جس میں نسل کشی کی تمام نشانیاں موجود ہیں۔

اب تو مجرم کھلم کھلا غزہ پر مکمل اور مستقل فوجی قبضہ مسلط کرنے کے منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ نئے محاصروں، نئے بفر زون، اور نئی بے دخلیوں اور جبری نقل مکانیوں کی بات کر رہے ہیں اور اسے "سیکیورٹی" کا نام دے رہے ہیں۔ لیکن ہم اس کے اصل نام کو خوب جانتے ہیں: "نسلی صفایا" (Ethnic cleansing)، ایک منظم کوشش کہ ایک قوم کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کرکے تباہ کر دیا جائے کہ ان کے پاس تباہی یا جلاوطنی کے سوا کچھ بھی نہ بچے۔

غزہ کے لوگوں کا منصوبہ بند طریقے سے قتل عام کیا جا رہا ہے، رہائشی علاقے مکمل طور پر تباہ کر دیئے گئے ہیں، ہسپتال قبرستانوں میں بدل گئے ہیں؛ اور غزہ کے بچے ہر قسم کے انسانی معیاروں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے قحط اور شدید بھوک کا شکار ہیں۔ یہ کوئی عام جنگ نہیں ہے۔ یہ اجتماعی سزا ہے، ایک پالیسی تسلط جمانے کے لئے، اور ہاں، وہ حملہ جس میں نسل کشی کی تمام نشانیاں موجود ہیں۔

بین الاقوامی قانون واضح طور پر یہ کہتا ہے۔ بھوکا رکھنا اور اندھا دھند بمباری، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ اسی اثناء میں جنیوا کا چوتھا کنونشن غیر مسلح شہریوں کو نشانہ بنانے، گھروں کی تباہی اور آبادی کی جبری نقل مکانی پر پابندی عائد کرتی ہے۔ یہ جان بوجھ کر ایسا فارمولا مسلط کرنا، جو کسی قوم کے وجود کو مٹانے کے لئے بنایا گیا ہے، صرف ایک ہی نام رکھتی ہے: "نسل کشی۔ ہمیں اور کیا ثبوت درکار ہیں؟

تاریخ ہم سے پوچھے گی: جب غزہ دم گھٹنے کے قریب تھا، تو کیا عالم اسلام نے یک صدا ہو کر بات کی؟ کیا ہم نے عمل کیا، یا نہیں بلکہ ہم نے دوسروں کے اقدام کا انتظار کیا؟ اور انہیں اپنے لئے فیصلے کرنے کا موقع دیا؟ آج، خالی خولی باتیں اور بے عمل مذمتی بیانات بالکل بے اثر ہیں۔

امن قائم کرنے اور غزہ کی سرزمین کے ہر انچ سے غاصب فوجوں کے مکمل انخلا کو یقینی بنانے کے لئے، ہمیں عزم کے ساتھ:

• تمام سیاسی، معاشی اور قانونی ذرائع بشمول پابندیاں، بائیکاٹ یا ہم آہنگ بین الاقوامی دباؤ کو متحرک کرنا ہوگا،

• صہیونی ریاست کو ہر سطح پر جوابدہ بنانے کے لئے کی کوشش کرنا پڑے گی، ہر عدالت میں، ان تمام افراد کے خلاف جو فلسطین میں جنگی جرائم اور نسل کشی میں ملوث ہیں یا اس کے سہولت کار ہیں،

• ہمیں غزہ میں اپنے بہنوں اور بھائیوں کے قاتلوں کے ساتھ تمام تعلقات فوری طور پر منقطع کرنا ہوں گے، جو آج "عظیم تر اسرائیل" کے مضحکہ خیز سپنے دیکھ رہے ہیں،

• یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ماضی میں نرمی کا رویہ لاحاصل رہا ہے اور مستقبل میں بھی لاحاصل رہے گا۔

ہمیں صہیونی ریاست کے ساتھ ان ممالک کی ساز باز کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا جو غاصب ریاست کو مسلح کرتے ہیں، اس کو بین الاقوامی مذمت سے محفوظ کرتے ہیں اور انصاف کو ویٹو کرتے ہیں۔ وہ غیر جانبداری سے میلوں دور ہیں، حالانکہ جرم کے سامنے غیر جانبداری درحقیقت غیر جانبداری نہیں بلکہ ساز باز اور جرم میں شراکت ہے۔

عزیز رفقائے کار!

غزہ محض مصائب کا شکار خطہ نہیں ہے؛ غزہ مقاومت و مزاحمت کی ایک علامت اور اس حقیقت کی علامت اور گواہ ہے کہ 'انسانی وقار کو بمباری سے جلا کر راکھ نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ کے لوگ ہماری با معنی حمایت کے منتظر ہیں، اور ان کی استقامت ہمیں دعوت دے رہی ہے کہ ہم نہ صرف الفاظ کی حد تک بلکہ عمل میں بھی مضبوطی سے ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہمیں سکھایا کہ 'امت مسلمہ جسمِ واحد کی مانند ہے!۔ آج یہ جسم زخمی ہے اور غزہ میں خون میں نہا رہا ہے۔ خاموش رہنا درحقیقت اپنے آپ کو زخم پہنچانے کے مترادف ہے، اور بہادرانہ عمل ہی اس کا علاج ہے۔

میں سچی امید رکھتا ہوں کہ یہ اجلاس تاریخ کے صفحات میں محض ایک ایسے اجتماع کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو 'تقریروں اور وعدوں سے بالاتر تھا!'۔ ہمیں آج کے دن کو اس طرح سے تعمیر کرنا چاہئے جب عالم اسلام ایک غیر فعال گواہ سے 'مضبوط عزم' بن کر ابھرا اور خاموشی چھوڑ کر 'طاقتور قیادت' کی صورت اختیار کر گیا۔ یہ ایسا دن ہو جب ہم نے انصاف کو خوف پر، وحدت کو شک پر، اور انسانیت کو سیاست پر ترجیح دی۔

آیئے ہم اس بات کو یاد رکھیں کہ غزہ کا سانحہ صرف مسلمانوں سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ عالمی ضمیر کے لئے ایک آزمائش ہے۔ چنانچہ ہم تمام قوموں سے، چاہے ان کا مذہب یا جغرافیہ کچھ بھی ہو، مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانیت، انصاف اور عزت و وقار کی سمت میں کھڑے ہوں: یعنی تاریخ کی صحیح سمت میں۔" تاریخ تاخیر کو معاف نہیں کرے گی۔ غزہ انتظار نہیں کر سکتا۔ 'عمل کا وقت اب ہے'۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha