16 ستمبر 2025 - 01:44
دوحہ اجلاس کے بیان کے بارے میں ایران کی آراء و تحفظات

واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران دریائے اردن سے لے کر بحیرہ روم تک کی سرزمین کو واحد فلسطینی ریاست سمجھتا ہے جس میں رہنے والے مسلمان، عیسائی اور یہودی باشندوں کو ایک جمہوری حکومت قائم کرنے کا حق ملنا چاہئے۔ اس حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران نے کئی برس پہلے فلسطینی مسئلے کے حل کے لئے اپنی تجاویز پر مبنی دستاویز اقوام متحدہ میں رجسٹر کروائی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آبادکار یہودیوں کو اپنے آبائی ممالک میں جا بسنا چاہئے، فلسطینی پناہ گزینوں کو فلسطین میں آنا چاہئے، یہاں کے اصل باشندوں کو ریفرینڈم میں اپنا حق خودارادیت استعمال کرکے اپنی جمہوری حکومت کی نوعیت کا تعین کرنا چاہئے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے کل رات دوحہ میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے ہنگامی سربراہی اجلاس کے بیان کے اجراء کے بعد ایران کے تحفظات اور نقطہ ہائے نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے: نام نہاد "دو ریاستی حل"  فلسطین کے مسئلے کو حل نہیں کرے گا، اور دوحہ سے جاری ہونے والے بیان میں اس عنوان کا اتفاق رائے سے شامل ہونا؛ صراحتاً یا اشارتاً کسی بھی طرح سے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کا اشارہ نہیں سمجھنا چاہئے۔

دوحہ اجلاس کے بیان کے بارے میں ایران کی آراء و تحفظات

آج قطر پر صہیونی ریاست کے حملے کے حوالے سے عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان کا ہنگامی اجلاس، قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہؤا اور ایرانی وفد مسعود پزشکیان کی صدارت میں اس اجلاس میں موجود تھا۔

 بیان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے دوحہ اجلاس کے اختتامی بیان پر موقف اختیار کیا کہ فلسطین کے مسئلے کا حل "دو ریاستی فارمولے" سے ممکن نہیں ہے۔ ایران نے واضح کیا کہ اجلاس کے بیان سے اتفاق کرنا اسرائیل کی تسلیم کرنے کے برابر ہرگز نہیں ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ فلسطین کے لیے واحد مستحکم حل ایک متحدہ جمہوری ریاست کا قیام ہے جہاں تمام فلسطینی (خواہ مقبوضہ علاقوں کے اندر ہوں خواہ کہیں اور پناہ گزینی کی زندگی گذارنے پے مجبور ہوں) ریفرنڈم کے ذریعے اپنا حق خودارادیت استعمال کریں۔

ایران بیان میں شامل بعض اصطلاحات جیسے "مشرقی بیت المقدس"، "1967 کی سرحدیں" وغیرہ کو تسلیم نہیں کرتا۔

وزارت خارجہ نے زور دیا کہ فلسطینی عوام کو بیرونی استعماری قبضے سے آزادی حاصل کرنے کا حق حاصل ہے اور اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے اس حق میں کوئی کمی نہیں آنی چاہئے۔

امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ایران نے کہا کہ امریکہ اسرائیلی جارحیت کے تسلسل کا ذریعہ بنا ہؤا ہے، لہٰذا وہ فلسطین میں منصفانہ امن کے عمل میں معتبر یا غیر جانبدار فریق نہیں ہو سکتا۔

ایران نے قطر اور مصر کی امن کوششوں کی تعریف کی، لیکن امریکی کردار پر سوالیہ نشان لگایا۔

آخر میں ایران نے درخواست کی کہ اس کے تحفظات اجلاس کی حتمی رپورٹ میں شامل کیے جائیں۔

وزارت خارجہ کے بیان کے اہم نکات:

اہم نکات:

1۔ دو ریاستی حل کی نامنظور

2۔ اسرائیل کی تسلیم کرنے سے انکار

3۔ فلسطینی خودارادیت پر زور

4۔ امریکی کردار پر تنقید

5۔ تحفظات کی دستاویز کاری (Documentation) کی درخواست

وضاحت:

واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران دریائے اردن سے لے کر بحیرہ روم تک کی سرزمین کو واحد فلسطینی ریاست سمجھتا ہے جس میں رہنے والے مسلمان، عیسائی اور یہودی باشندوں کو ایک جمہوری حکومت قائم کرنے کا حق ملنا چاہئے۔ اس حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران نے کئی برس پہلے فلسطینی مسئلے کے حل کے لئے اپنی تجاویز پر مبنی دستاویز اقوام متحدہ میں رجسٹر کروائی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آبادکار یہودیوں کو اپنے آبائی ممالک میں جا بسنا چاہئے، فلسطینی پناہ گزینوں کو فلسطین میں آنا چاہئے، یہاں کے اصل باشندوں کو ریفرینڈم میں اپنا حق خودارادیت استعمال کرکے اپنی جمہوری حکومت کی نوعیت کا تعین کرنا چاہئے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha