بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، لیبیا کے مفتی اعظم، شیخ ڈاکٹر الصادق الغریانی نے امریکہ اور بعض عرب ممالک پر سخت تنقید کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں غزہ کے لئے بڑی مقدار میں امداد بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے کہا: "امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، یوکرین اور روس کے درمیان امن کی بات کرتے ہیں، لیکن بے گناہوں کے قتل عام اور غزہ کی پٹی پر فضائی حملوں میں اضافے پر خاموش رہتے ہیں۔"
انھوں نے عرب ممالک اور علاقائی ثالثوں سے مخاطب ہوتے ہوئے زور دے کر کہا: "اگر آپ فلسطینیوں کی حمایت میں اقدام نہیں کرنا چاہتے اور غزہ کے مظلوموں کے حقوق کی خلاف ورزی کو روکنے میں ناکام ہیں، تو بہتر ہے کہ مذاکرات سے دستبردار ہو جائیں یا حتیٰ کہ استعفیٰ دے دیں۔"
الغریانی نے مزید کہا: "مذاکرات میں آپ کا کی کیا پوزیشن ہے جبکہ آپ مظلوموں کو تحفظ دینے سے پہلو تہی کر رہے ہیں؟ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ آپ اور عرب حکمرانوں پر کے ماتھے پر بدنامی کا داغ ہے جسے کوئی چیز صاف نہیں کر سکتی۔"
لیبیا کے مفتی نے واضح کیا کہ عالم اسلام پر فرض ہے کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں جہاز بھیج کر غزہ کے محاصرے کو توڑ دے۔
ان کا کہنا تھا: "ان مسلمانوں پر لعنت ہو جو غزہ میں ظلم کا منظر دیکھتے ہیں لیکن کوئی اقدام نہیں کرتے۔"
انہوں نے لیبیا کی داخلی سیکورٹی کے ادارے کی جانب سے امدادی قافلوں کو غزہ جانے سے روکنے کی اطلاعات کا بھی حوالہ دیا اور کہا: "اگر یہ خبر درست ہے، تو واقعی شرمناک ہے۔"
واضح رہے کہ لیبیا کے مفتی اعظم نے چند روز قبل بھی عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ لین دین اور تعاون پر سخت تنقید کی تھی اور مصر اور متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کے ساتھ تعاون پر سخت اعتراض کیا تھا۔
لیبیا کے مفتی اعظم کے نے کہا تھا:
• افسوسناک بات ہے کہ بہت سے عرب نظا م، خاص طور پر مصر اور متحدہ عرب امارات، فعال طور پر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی دشمن کی جارحیت میں شریک ہیں۔
• مصر اور متحدہ عرب امارات ان عرب نظا موں میں شامل ہیں جو دشمن کے لیے رسد کی فراہمی کو آسان بنا رہے ہیں۔
• مصر کی بندرگاہیں صہیونی دشمن کے ان جہازوں کو خدمات فراہم کرتی ہيں جو اسلحہ، گولہ بارود اور موت لے کر آتے ہیں اور مصر کا یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔
• مصر کے بندرگاہیں دشمن صیہونی جہازوں کو خدمات فراہم کرتی ہیں، جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک ـ جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار کئے ہوئے ہیں ـ بھی یہی کام کرتے ہیں، جبکہ بعض یورپی ممالک اس ریاست کے ساتھ تعامل سے گریز کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ