بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ترقی پذیر ممالک تیزی سے ڈالر کے قرضوں پر انحصار کم کر رہے ہیں اور کم سود والی کرنسیوں ـ جیسے چینی یوان اور سوئس فرانک ـ کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
یہ تبدیلیاں امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے اور ڈالر میں مالیاتی اخراجات کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے رد عمل کے طور پر سامنے آئی ہیں۔
انگریزی اخبار فنانشل ٹائمز نے رپورٹ دی کہ کینیا، سری لنکا اور پاناما جیسے ممالک اپنے ڈالر کے قرضوں کا ایک حصہ سستی کرنسیوں میں تبدیل کر رہے ہیں تاکہ حکومتوں پر مالی دباؤ کم ہو اور وہ اپنے ہنگامی بجٹ کا انتظام کر سکیں۔
مہنگا ڈالر اور مشکل مالیاتی وسائل
الائنس برنسٹائن (AllianceBernstein) سرمایہ کاری کمپنی میں عالمی معاشی تحقیق کے نائب صدر آرمینڈو آرمنٹا نے اس بارے میں کہا: "اعلیٰ شرح سود اور امریکی ٹریژری بانڈز کے تیز شرح سود (yield curve) کے وکر (منحنی خطوط) نے ترقی پذیر ممالک کے لیے ڈالر میں مالیاتی وسائل حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے، چاہے سود کا فرق نسبتاً کم ہی کیوں نہ ہو۔"
ان کے مطابق، یہ ممالک مالیاتی دباؤ کو کم کرنے کے لئے سستے اور زیادہ مستحکم متبادل کی تلاش میں ہیں۔
ان اقدامات میں سے زیادہ تر اقدامات عارضی سمجھے جاتے ہیں، اور ممالک نے اپنے فوری مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ تبدیلیاں نافذ کی ہیں۔ [لیکن ان کو مسلسل دہرایا جائے تو مستقل رویے میں تبدیل ہو جائیں گے، ڈالر منڈی سے رخصت ہوجائے گا]۔
"بیلٹ اینڈ روڈ" منصوبے کا کردار
یوان کی طرف منتقلی کا ایک حصہ چین کے بین الاقوامی منصوبے "بیلٹ اینڈ روڈ" سے بھی منسلک ہے، جس کے تحت چین نے ترقی پذیر ممالک کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لئے اربوں ڈالر مختص کئے ہیں۔
کینیا اور سری لنکا جیسے ممالک اپنے ڈالر کے قرضوں کا ایک حصہ چینی یوان میں تبدیل کر رہے ہیں، کیونکہ ڈالر میں مالیاتی لاگت میں نمایاں اضافہ ہؤا ہے اور کرنسی تبدیلی کی ترغیب مزید مضبوط ہوئی ہے۔
کولمبو میں فرنٹیئر ریسرچ کی ماہر معاشیات تھیلینا پانڈو والا (Thilina Panduwawala) نے فنانشل ٹائمز کو بتایا: "لگتا ہے کہ سنگین مالیاتی اخراجات یوان کی طرف رجحان کی بنیادی وجہ ہیں۔"
یوان میں قرضے محدود ہیں ابھی
اس رجحان کے باوجود، یوان یا سوئس فرانک کا استعمال ابھی تک محدود ہے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں چین-افریقہ اقدامات کے محقق یوفان ہوانگ نے زور دیا کہ "بہت سے ممالک اب بھی ان کرنسیوں میں برآمداتی آمدنی کی کمی کی وجہ سے یوان یا فرانک کے وسیع پیمانے پر استعمال میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، اور فیصلے ہر معاملے میں الگ الگ بنیادوں پر کئے جاتے ہیں۔"
ممالک کو زر مبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ کے خطرات سے بچاؤ کے لیے مالیاتی اختیارات (financial derivatives) کا استعمال بھی کرنا پڑتا ہے۔
کامیاب مثالیں: پاناما اور کولمبیا
جولائی 2025 میں، پاناما نے اپنے بجٹ کے خسارے کا انتظآم کرنے کرنے اور اپنے کریڈٹ کی درجہ بندی میں گراوٹ کو روکنے کے لئے سوئس فرانک میں 2.4 ارب ڈالر کے برابر قرض حاصل کیا۔ پاناما کے وزیر خزانہ فیلیپ چیپ مین نے کہا: "سستی مالیاتی وسائل تک رسائی سے 200 ملین ڈالر سے زیادہ کی بچت ہوئی ہے، اور یہ قرض مکمل طور پر بیمہ شدہ ہیں۔"
پاناما نے اس اقدام کے ذریعے اپنے قرضوں کے انتظام کو یورو اور سوئس فرانک میں متنوع کر دیا ہے تاکہ ڈالر مارکیٹ پر انحصار کم ہو۔
کولمبیا بھی اسی طرح کے راستے پر گآمزن ہے اور 1.5% شرح سود پر سوئس فرانک کے قرضوں کے ذریعے 7 سے 8% شرح سود والے ڈالر کے قرضوں کو چکا رہا ہے۔ ایکس پی انویسٹمنٹس کے مکرو اقتصادی حکمت عملی کے سربراہ اینڈریز بارڈو کے مطابق، سوئس فرانک کا استعمال سود کے اخراجات کو کم کر سکتا ہے، لیکن یہ [ابھی] ڈالر کی وسیع مارکیٹ تک رسائی کا متبادل نہیں ہے۔
یورو میں قرضوں کی شرح میں اضافہ
ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں کام کرنے والی کمپنیوں نے بھی اس سال یورو میں جاری ہونے والے قرضوں کے بانڈز میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے، اور جولائی 2025 تک اس کی کل مالیت 239 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ ڈالر میں جاری کئے گئے کل قرضوں کی مالیت تقریباً 2.5 ٹریلین ڈالر ہے۔
امپیکس ایسٹ مینجمنٹ کے چیف پورٹ فولیو مینیجر ٹیکی ہورٹچووِی کے مطابق، "اس سال یورو بانڈز کی شرحِ اجراء ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے بڑھی ہے، اور ایشیائی ممالک ان بانڈز کے کل اجراء کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہیں، جو کہ 15 سال پہلے کے 10-15 فیصد کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔"
ان تبدیلیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کا امریکی ڈالر پر انحصار، شرح سود میں اضافے اور اعلیٰ مالیاتی اخراجات کی وجہ سے کم ہو رہا ہے۔ کم سود والے اور زیادہ مستحکم کرنسیوں جیسے یوان اور سوئس فرانک کی طرف رجحان نہ صرف حکومتوں پر مالی دباؤ کو کم کرتا ہے، بلکہ یہ اقتصادی خودمختاری اور ڈالر کی بالادستی سے دور ہونے کی کوششوں کی طرف بھی اشارہ ہے۔
درحقیقت، ترقی پذیر ممالک ان اقدامات کے ذریعے قرضوں کے انتظام اور ذہین (smart) مالی منصوبہ بندی میں ایک نیا باب لکھ رہے ہیں، اور معاشی استحکام اور بین الاقوامی دباؤ میں کمی کے لئے ایک نیا راستہ تشکیل دے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ