بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق غزہ میں حالات کی تبدیلی اور صہیونی ریاست کے جرائم میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی اداروں اور خاص طور پر بعض عرب و اسلامی حکمرانوں کی مسلسل اور مجرمانہ خاموشی کے دوران، علمی شخصیات اور سیاسی تجزیہ کاروں نے غاصب ریاست کے خلاف عالم اسلام کے اتحاد اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے اتحاد کو فلسطینی عوام کے دکھ اور غم کو ختم کرنے کا واحد راستہ قرار دیا ہے۔ ایک ایسا موضوع جس پر "عالم اسلام کے اتحاد اور مسئلۂ فلسطین" کے عنوان سے منعقدہ علمی اجلاس کے شرکاء نے زور دیا۔
یہ ملاقات کہ ترکی کی یونیورسٹیوں کے تین ممتاز پروفیسروں کی موجودگی میں ابنا نیوز ایجنسی میں منعقد ہوئی، جس میں آدیامان یونیورسٹی کے ڈین آف فیکلٹی آف تھیالوجی پروفیسر ڈاکٹر حمدی گوندوغار، استنبول یونیورسٹی کی فیکلٹی آف تھیالوجی کے فیکلٹی ممبر ڈاکٹر سیلم گول وردی اور آتا تورک یونیورسٹی کو فل ڈاکٹر رحمت یلدیز نے شرکت کی اور صہیونی ریاست کے خلاف مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا:
مسلمان، دو ارب کی آبادی کے باوجود بکھرے ہوئے ہیں!
پروفیسر حمدی گوندوغار نے اپنی تقریر میں عالم اسلام کی عظیم صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: آج دنیا میں دو ارب سے زائد مسلمان آباد ہیں اور توانائی کے زیادہ تر وسائل، نوجوان آبادی اور جیو پولیٹیکل پوزیشنز اسلامی ممالک کے ہاتھ میں ہیں؛ لیکن یہ صلاحیت اتحاد کے فقدان کی وجہ سے بالکل غیر مؤثر ہے۔ جب کہ یورپ نے مذہبی اور سیاسی اختلافات کے باوجود یورپی یونین تشکیل دی ہے اور امریکہ 50 ریاستوں پر مشتمل ایک مرکز سے حکومت کر رہا ہے، مسلمان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں پھنس گئے ہیں اور اسی بنا پر کمزور پڑ گئے ہیں۔
ترکیہ کی آدیامان یونیورسٹی کے ڈین آف فیکلٹی آف تھیالوجی کے ڈین نے تاکید کی: اگر اسلامی ممالک اکٹھے ہوتے تو اسرائیل کبھی بھی ایسی تباہی پھیلانے کی جرات نہ کرتا۔ آج غزہ میں 60 ہزار سے زیادہ بے گناہ لوگ شہید ہوچکے ہیں اور یہ صرف عالم اسلام میں باہمی تقسیم اور انتشار کا نتیجہ ہے۔ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک آزمائش ہے۔
قرآن و سنت کی طرف پلٹنا ہی اتحاد کی کنجی ہے
ڈاکٹر سیلم گول وردی نے ماضی کے بارے میں امت اسلامیہ کے نقطہ نظر کا جائزہ لینے کی ضرورت کی یاد دہانی کرائی اور کہا: اتحاد کے لئے ہمیں ایک مضبوط بنیاد کی ضرورت ہے، اور یہ بنیاد قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی مستند سنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے ماضی کے تاریخی اور سیاسی اختلافات کو بار بار زندہ کیا ہے اور انہیں اعتقادی مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس طرز عمل کا انجام امت کی پسماندگی اور انحطاط کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
استنبول یونیورسٹی کی فیکلٹی آف تھیالوجی کے فیکلٹی ممبر نے مزید کہا: نسل پرستی اور قوم پرستی بھی اتحاد کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ترک، عرب، کرد یا فارسی ہونا کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ کی مرضی ہے۔ ان اختلافات کو ثقافتی سرمائے اور تنوع کے طور پر دیکھنا چاہئے، نہ کہ اسے دشمنی کا اوزار بنایا جائے۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ، اپنی شناخت صرف اپنے اسلامی تشخص سے کرانی چاہئے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ مسلم اقوام کے درمیان براہ راست روابط قائم کرنے سے غلط فہمیوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا: یورپ میں لوگ بغیر سرحدوں کے سفر کرتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اتنی سہولتیں دستیاب کیوں نہیں ہیں؟ قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانا بہتر افہام و تفہیم اور غلط نظریات کے ازالے کا باعث بنے گا۔
اتحاد نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے حاصل ہوتا ہے
اجلاس کے تیسرے مقرر پروفیسر رحمت یلدیز نے بھی اتحاد کے راستے پر عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: اتحاد صرف تقریروں اور بیانات سے حاصل نہیں ہوتا۔ اسلامی تعاون تنظیم جیسے اداروں کو زیادہ مؤثر ہونا چاہئے، اس کے فیصلوں کو نافذ العمل ہونا چاہئے، اس کے پاس امت کے دشمنوں پر دباؤ ڈالنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ نیز اسلامی ممالک کو معیشت، تجارت، سلامتی اور ذرائع ابلاغ جیسے شعبوں میں حقیقی تعاون قائم کرنا چاہئے۔ اگر یورپ ایسا اتحاد بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں بنا سکتے؟
انھوں نے صہیونی ریاست کے جرائم کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے غیر فعال اور معذرت خواہانہ سے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا: اگر اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر لیتے اور شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر دیتے تو آج ہم غزہ میں قتل و غارت کا یہ حجم نہ دیکھتے۔ صہیونی جنگی مشین کو حقیقی اتحاد ہی روکا جا سکتا ہے۔
میٹنگ کے آخر میں، ترک یونیورسٹی کے پروفیسرز نے ابنا نیوز ایجنسی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس اور اس جیسی میٹنگز کے انعقاد پر میڈیا کے نمایاں کردار پر زور دیا اور کہا کہ وہ سچائی کے اظہار اور عالم اسلام کے اشرافیہ کے اتحاد کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ترکیہ کی جامعات کے ان اساتذہ نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کو قوم کی زبان ہونا چاہئے؛ باخبر ذرائع ابلاغ غلط فہمیوں کو دور کرسکتے ہیں اور قوموں کے درمیان پل کا کام کرسکتے ہیں۔ اسلامی ذرائع ابلاغ کو مضبوط کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مسلم ممالک کا سیاسی اور معاشی اتحاد ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ