اہل بیت نیوز ایجسنی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان اور پاکستان کے درمیان کمزور ہوتی جنگ بندی کے تناظر میں ایران اور روس نے گزشتہ ہفتے ایک الگ سفارتی اقدام کا آغاز کیا، جسے پیر کے روز ایران کے مشیرِ قومی سلامتی علی لاریجانی کے بروقت اسلام آباد پہنچنے سے مزید تقویت ملی۔
رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ماہ افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد قائم ہونے والی جنگ بندی حالیہ خودکش حملوں کی لہر اور کابل کی جانب سے پاکستان پر جوابی ڈرون حملوں کے متنازع دعوؤں کے بعد خطرے میں پڑ گئی ہے۔
اخبار ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق، چونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو انتقام کی دھمکیاں دے چکے ہیں، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر، ترکی، ایران اور روس جیسے علاقائی ثالثوں کے پاس دشمنی کے نئے دور کو روکنے کے لیے محدود وقت باقی ہے۔
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ اگر تنازع بڑھا تو یہ ایک طویل نیابتی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے، جس سے داعش خراسان جیسے سرحد پار دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل جائے گا۔
سابق افغان سفیر عمر صمد کے مطابق اسلام آباد اور کابل کے درمیان ’’خطرناک موش و گربہ کا کھیل‘‘ اب ’’انتقامی مرحلے‘‘ میں داخل ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق کشیدگی کسی بھی وقت اس حد تک بڑھ سکتی ہے کہ ثالثوں کو مداخلت کا موقع ہی نہ ملے۔
انہوں نے یہ بھی امکان ظاہر کیا کہ فریقین شاید جان بوجھ کر تناؤ میں اضافہ کر کے بین الاقوامی ثالثی کو تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
کابل نے اب تک ان حملوں کا جواب نہیں دیا جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے تین مشرقی صوبوں—خوست، کنڑ اور پکتیکا—میں کارروائیاں کیں، جہاں اقوام متحدہ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے جنگجو بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی کارروائیوں کو ’’بے نتیجہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف پاکستان کی ’’غلط معلومات پر مبنی‘‘ پالیسیوں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسری جانب، پاکستان نے افغانستان میں کسی فضائی حملے کی سختی سے تردید کی ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’’پاکستان جب بھی کارروائی کرتا ہے، اس کا اعلان خود کرتا ہے۔‘‘
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ خطے کے ممالک جنگ کو روکنے کے لیے کردار ادا کریں گے، ورنہ طالبان حکومت عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکار ہو سکتی ہے۔
ترکی اور قطر ایک نئی میٹنگ کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ جنگ بندی کی نگرانی کا مؤثر نظام بنایا جا سکے۔
اسی دوران ایران اور روس کا نیا سفارتی اقدام بھی سرگرم ہے، جسے لاریجانی کے اسلام آباد کے دورے نے مزید فعال بنایا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر کابل TTP کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہا تو پاکستان خفیہ طور پر افغانستان کے اندر مخالف طالبان گروہوں کی مدد کی طرف جا سکتا ہے—جو خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل دے گا۔
مائیکل کوگلمن، جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر، خبردار کرتے ہیں کہ اگر پاکستان نے کھل کر مخالف طالبان گروہوں کی حمایت شروع کر دی تو خطے میں دہشت گرد گروہوں کے پھیلاؤ کے لیے سازگار حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
دہشت گردی کے ماہر لوکاس ویبر کے مطابق موجودہ بیچینی داعش خراسان کو متحرک ہونے کے لیے موزوں ماحول فراہم کر رہی ہے۔ سرحدی کشیدگی اور کمزور حکومتی کنٹرول کے باعث یہ گروہ نقل و حرکت، پناہ اور نئی منصوبہ بندی کے مواقع حاصل کر رہا ہے۔
ویبر کا کہنا ہے کہ کابل کی توجہ پاکستان کے ساتھ بحران پر مرکوز ہونے سے داعش خراسان کو بین الاقوامی اہداف کے خلاف بیرونِ ملک حملوں کی منصوبہ بندی کا دوبارہ موقع مل سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نہ پاکستان اور نہ طالبان حکومت فی الحال پیچھے ہٹنے یا مکمل طور پر مذاکرات پر انحصار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کچھ ماہرین یہاں تک کہتے ہیں کہ پردے کے پیچھے بڑی طاقتوں کی رقابت یا افغانستان میں ممکنہ ’’تبدیلیِ حکومت‘‘ جیسے پوشیدہ اہداف بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔
امید کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک کم از کم جنگ بندی کے تسلسل پر متفق ہو جائیں، تاکہ خطے میں تشدد میں کمی اور وسیع تر عدم استحکام کو روکا جا سکے۔
آپ کا تبصرہ