بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایسے حال میں کہ غزہ کا محاصرہ شدت و حدت کے ساتھ جاری ہے اور وہاں کے لوگ اب کیمروں کے سامنے، بھوک سے مر رہے ہیں اور اور امت خاموش ہے، اور مغرب مصنوعی بھکمری میں صہیونیوں کے سابھ برابر کا شریک ہے، ملک یمن اسرائیل کی ناکہ بندی اور محاصرے کے لئے کوشاں ہیں، لیکن ترکیہ کے اردوان اور مصر کے السیسی یمنیوں کی ان مجاہدانہ کوششوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ انہوں نے غزاویوں کو صہیونی-مغربی ناکہ بندی سے نہیں، بلکہ صہیونیوں کو یمنیوں کی اقتصادی ناکہ بندی سے، بہت حد تک نجات دلائی ہے۔
ترکیہ کے اردوان صہیونی صدر اسحاق ہرزل کے سامنے کرنش بجا لاتے ہوئے
صرف ایک دن میں چار بحری جہاز ترکیہ سے اور ایک مصر سے حیفا کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہوئے ہیں اور سیمنٹ بھرے دو جہاز مصر سے، اشدود کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوئے ہیں۔
شماریاتی تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اشدود بندرگاہ پر آنے والے 14 فیصد جہاز ترکیہ کی بندرگاہوں سے اور 14 فیصد مصر کی بندرگاہوں آئے ہیں۔ [یعنی 28 فیصد جہاز دو ایسے ملکوں سے آ رہے ہیں جو صرف خود کو مسلمان یاعرب کہتے ہیں گوکہ ان کے درمیان نظریاتی اختلاف ترکی اخوانیت اور مصری علمانیت کے باہمی تنازع جتنا شدید ہے؛ لیکن یہودی صہیونیت کی خدمت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں]۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور نیتن یاہو کی مستانہ ہنسیاں
اسرائیل ترکیہ سے گاڑیاں، اسٹیل، مہنگی دہاتیں، تیل کی مصنوعات، ملبوسات، تعمیراتی سامان اورویجیٹیبل گھی اور تیل، درآمد کرتا ہے۔
مصر بھی پھل، تازہ اور ڈبہ بند سبزیاں، نمک، سیمنٹ، تعمیراتی مواد اور کیمیکلز اسرائیل کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔
اسرائیل مصری بندرگاہوں ـ بالخصوص پورٹ سعید ـ کو بحیرہ احمر میں یمن کی لگائی ہوئی پابندیوں کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ ترکیہ اور مصر کا لین دین دو طرفہ ہے، صہیونی انہیں اپنی مصنوعات فروخت کرتے ہیں اور ان کی مصنوعات خریدتے ہیں۔
اسی وقت 12 جہاز اسرائیلی بندرگاہوں سے ترکیہ کی طرف اور 15 جہاز مصری بندرگاہوں کی طرف رواں دواں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ