بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
ایران اور چین کے اور چین کے درمیان ـ چینی شہر شیان (Xi'an) سے ایران کے ڈرائی پورٹ 'آپرین' تک ـ براہ راست ریل رابطے کے باضابطہ آغاز کے ساتھ ہی، چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ" انیشیٹو یا BRI کے فریم ورک کے اندر دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تزویراتی تعاون کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔
یہ راستہ، جو مشرقی اور مغربی ایشیا کے درمیان آمدورفت کے وقت کو نصف کر دیتا ہے، ایک نئے تناظر میں قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی کی علامت ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب آبنائے ہرمز، ملاکا اور سویز جیسی سمندری گذرگاہیں دباؤ اور عدم استحکام کا شکار ہو چکی ہیں اور کسی بھی وقت میدان جنگ بن سکتی ہیں، ایرانی سرزمین سے گذرنے والی یہ زمینی راہداری ایک پائیدار، محفوظ اور لچکدار متبادل کا کردار ادا کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایران اور چین ریلوے تعاون محض نقل و حمل کا منصوبہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ مغرب کی طرف سے اقتصادی دباؤ اور پابندیوں پر قابو پانے کے لئے ایک جیو پولیٹیکل حکمت عملی بھی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے پروجیکٹ سروسز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جارج موریرا دا سلوا (Jorge Moreira da Silva) نے چینی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے پائیدار عالمی ترقی میں چین کے کردار اور ترقی پذیر ممالک کے بنیادی ڈھانچے کے لئے اس کی حمایت کی اہمیت پر زور دیا۔
انھوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے 90 فیصد سے زیادہ اہداف کا انحصار موثر انفراسٹرکچر (پانی کے وسائل، صحت، توانائی اور نقل و حمل) پر ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو بالکل اسی سمت میں کام کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے نقطہ نظر سے، ایران 2019 میں باضابطہ طور پر اس اقدام میں شامل ہؤا اور وہ اپنے منفرد جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھا کر مشرقی-مغربی راستے پر ایک اہم پوزیشن حاصل کر سکتا ہے۔
بندر عباس میں چینی قونصل خانے کا افتتاح بھی جنوبی ایران میں بحری اور لاجسٹکس کے شعبوں میں اس تزویراتی تعاون کی توسیع کی طرف کرتا ہے۔ تاہم، دونوں ممالک ابھی تک ایران کی غیر ملکی تجارت کے مرکز "شہید رجائی بندرگاہ" جیت-جیت (Win-win) پر مبنی تعاون کے حوالے سے کسی سمجھوتے پر نہيں پہنچ سکے ہیں؛ جس پر کہ شاید دونوں ممالک کو زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
مغرب کی بدعہدی کی وجہ سے مذاکرات میں تعطل، امریکی اقتصادی پابندیوں میں شدت آنے اور ایران پر صہیونی ریاست کی مسلط کردہ 12 روزہ جنگ سمیت مغربی ایشیائی خطے میں کشیدگیوں کے باوجود، چین کے ساتھ براہ راست ریل رابطے نے بین الاقوامی اقتصادی دباؤ توڑنے کا ایک قیمتی موقع فراہم کیا ہے۔
چین، ایران، قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ترکی کے ریلوے حکام کے ایک حالیہ اجلاس میں، خطے کے ممالک کا بین البراعظمی نقل و حمل کا نیٹ ورک بنانے کا عزم پہلے سے کہیں زیادہ نمایآں ہؤا؛ ایک ایسا نیٹ ورک جو عالمی تجارت پر مغرب کی روایتی اجارہ داری کو چیلنج کر سکتا ہے۔
نقل و حمل اور ٹرانزٹ کے ماہر کریم نائینی کے مطابق، چین کے ساتھ نئی سمجھوتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران صرف سامان کی ترسیل کا راستہ نہیں ہے، بلکہ یوریشیائی معیشت میں بتدریج ایک تزویراتی گیٹ وے کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ حالیہ برسوں میں قشم بنکرنگ ہب، خلیج فارس-قشم پل کی تعمیر یا بندر عباس کی ترقی جیسے مواقع مغربی نقطہ نظر اور کئی دیگر ملکی مسائل کی وجہ سے ضائع ہو گئے ہیں، تاہم خارجہ پالیسی کی از سر نو تشکیل اور فعال اقتصادی سفارت کاری نے اس تاریخی کردار کی از سرنو بحالی کو ممکن بنایا ہے۔
بالآخر، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی شکل میں ایران اور چین کے تعاون سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ یوریشیائی تجارت کے لئے ایک نیا نقشہ بھی تیار کیا جائے گا؛ ایک ایسا نقشہ جو شاہراہ ریشم کے قدیم پس منظر سے ابھرتا ہے اور دنیا کے مستقبل کو نئے سرے سے ڈیزائن کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ