25 جولائی 2025 - 13:49
مؤمن ایک سوراخ سے دو  بار نہیں ڈسا/کاٹا جاتا، حدیث

سوال: کیا یہ مشہور جملہ ایک حدیث ہے: "لَا يُلْدَغُ المُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ؛ مؤمن ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا/کاٹا جاتا"؟

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |

جب بھی کوئی شخص ایک غلطی کو دو بار یا مسلسل دہراتا ہے، اور اس کو پھر بھی پہلے جیسے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی نقصان اٹھاتا ہے تو عقلاء اس کو اپنی غلطی کی یاددہانی کراتے ہوئے نصیحت کے طور پر اس جملے کا سہارا لیتے ہیں کہ "لَا يُلْدَغُ المُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ؛ مؤمن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا/کاٹا جاتا"۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جملہ کہاں سے آیا کیا یہ واقعی حدیث ہے، جو ایک ضرب المثل کی صورت بھی اختیار کر گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر عقل سلیم اس جملے کا ادراک کرتی ہے اور اس کی تردید نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اگر یہ حدیث نہ بھی ہوتی تب بھی اس کو اپنی زندگی میں لاگو کرنا ضروری ہوتا۔

1۔ اہل سنت کے مشہور محدث محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ البخاری الجعفی (ولادت 194ھ ـ وفات 256ھ) نے یہ حدیث اسی صورت میں ابو ہریرہ سے نقل کی ہے۔ [1]

2۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

  • "المؤمنُ حَسَنُ المَعونةِ، خفيفُ المَؤونةِ، جَيّدُ التّدبيرِ لِمَعيشتِهِ، لا يُلْسَعُ مِن جُحْرٍ مرّتينِ؛ مؤمن نیک مددگار ہے، کم خرچ ہے اور کم ہی کسی کو زحمت دیتا ہے؛ اپنی زندگی کا انتظام احسن طریقے سے چلاتا ہے اور ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا/کاٹا جاتا"۔ [2]

3۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

  • "لا يُلسَعُ العاقِلُ مِن جُحرٍ مَرَّتَينِ؛ عقلمند انسان ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا/کاٹا نہیں جاتا"۔ [3]

ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن یا حتی کہ عاقل شخص اگر ایک اقدام کی وجہ سے ایک مرتبہ گھاٹے سے دوچار ہوجائے، یا کسی فریبی کے دھوکے میں آیا تو وہ اس تلخ تجربے سے سبق سیکھتا ہے، دوبارہ وہی کام دہراتا نہیں ہے چنانچہ دوبارہ اسی نقصان سے دوچار نہیں ہوتا، ایک بار پھر وہی غلطی نہیں کر بیٹھتا اور ایک بار پھر دشمن یا کسی عام دھوکے باز شخص کے دھوکے میں نہیں آتا، اور اپنی غلطی دوبارہ نہیں دہراتا اور آنکھیں کھول کر میدان میں قدم رکھتا ہے۔

استعمار و استکبار اور دوسری جنگ عظیم کے فاتحین نے ایک عالمی نظام کی بنیاد رکھی جو درحقیقت ان ہی کے مفادات کے لئے مرتب کیا گیا تھا اور اس کے دائرے میں چلنے کا فرمان جاری کیا اور اس ظالمانہ نظام کی پیروی کو "عقلیت؛ Rationality) کا نام دیا؛ اور اس نظآم کی عدم پیروی کو عقلیت کے خلاف اقدام قرار دیا۔ جبکہ اس نظام میں مسلمات اور بدیہیات کا انکار کیا جاتا ہے اور خوب و بد اور حق و باطل کا تعین طاقتوروں کے ہاتھ میں دیا گیا؛ چنانچہ ہمیں اس دنیا میں متعدد ایسے ممالک نظر آتے ہیں جنہیں مسلسل ڈسا/کاٹا جاتا ہے اور وہ پھر بھی اپنی غلطیاں دہراتے ہیں، یہاں تک کہ لگتا ہے کہ ان ممالک کے حکام جان بوجھ کر دھوکہ کھاتے ہیں، خواہ اس سے ان کے ماتحت قوموں کو عظیم ترین نقصانات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑتا ہو؛ کیونکہ یہ رویہ ان کے خودساختہ آقاؤں کی خوشنوی کا سبب بنتا ہے اور وہ ان کی خشک سی مسکراہٹ کمانے کے لئے ان حکمرانوں کو مسلسل دھوکہ کھانا پڑتا ہے اور یوں یہ ظالمانہ عالمی نظام قائم رہتا ہے اور قوموں ـ بالخصوص مسلمانوں ـ کو یہ دن دیکھنا پڑتا ہے کہ آٹھ ملین یہودی-صہیونی دو ملین غزاویوں کو فاقے کراتے ہیں اور عقلیت زدہ حکمران ـ اگر تھوڑی سی دینی یا انسانی غیرت کے حامل ہوں تو ـ دل ہی دل میں کڑھتے ہیں، لیکن مسلط کردہ فرعونی عقلیت کے دائرے سے نکلنے کی جرأت تک نہیں کرتے۔ گویا مذکورہ حدیث ان پر لاگو ہی نہیں ہوتی اور بے عقلی میں ہی ان کی حیات ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

[1]۔ البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج8، ص31۔

[2]۔ الکلینی الرازی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، ج2، ص241، ح38۔

[3]۔ الشیخ المفید، محمد بن محمد، الاختصاص، ص245۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha