8 نومبر 2013 - 20:30
ترکی میں سرحدی اسلحہ مارکیٹوں کی رونق میں اضافہ ہورہا ہے!

گوکہ شام کی صورت حال قطر، ترکی اور سعودی عرب نیز اسرائیل، فرانس اور امریکہ کے اقدامات کی وجہ سے افسوسناک اور اس ملک کے عوام کی صوت حال بھی بہت خراب ہوچکی ہے لیکن ترک ـ شام سرحد پر اسلحہ فروشی عروج پر ہے اور اسلحہ اور گولہ بارود کی مارکیٹیں بنی ہوئی ہیں جہاں سے اسلحہ کے عالمی اسمگلروں کے سرمائے میں زبردست اضافہ ہورہا ہے۔

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق نیویارک ٹائمز نے شام کی جنگ اور شام اور ترکی کی سرحدوں پر اسلحہ مارکیٹوں کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ترکی کے سرحدی قصبوں میں اسلحہ کی تجارت کو زبردست رونق ملی ہے اور یہاں فوجی ساز و سامان کے درجنوں بڑی بڑی دکانیں ان مسلح گروپوں کی میزبانی کرتی ہیں جو مختلف ممالک سے ترکی آتے ہیں اور ترکی سے شام میں داخل ہوتے ہیں۔ شام میں داخلے سے قبل اسلحہ خریدو ان دکانداروں کے لئے یہ بات بالکل اہم نہیں ہے کہ خریدار کہاں سے آئے ہیں وہ صرف یہی جانتے ہیں کہ یہ افراد جنگ کے لئے شام جارہے ہیں اور انہیں اپنا مشن پورا کرنے کے لئے ہتھیاروں اور عسکری سازو سامان کی ضرورت ہے۔ ایک دکاندار "طیفور برکات اوغلو" کہتا ہے: ہم خریداروں سے ان کی شہریت نہیں پوچھتے۔ ان میں سے اکثر لمبی لمبی سیاہ داڑھیوں کے ساتھ آتے ہیں اور ترکی کے بغیر دوسری زبانیں بولتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں جنگ ہورہی ہے اور ہمیں ضرورت نہيں ہے کہ ان افراد کی شہریت پوچھیں۔ یہ موضوع اس مارکیٹ کے تاجروں میں مشترکہ ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اکثر خریدار غیر ملکی مسلح گروپوں کے اراکین ہیں جو جنگ کے لئے شام جارہے ہیں۔ دکانداروں کا خیال ہے کہ مسلح گروپ استنبول کے راستے سے ترکی میں داخل ہوتے ہیں اور اس کے بعد انہیں انطاکیہ کے ہوائی اڈے میں پہنچایا جاتا ہے تا کہ سرزمین شام میں داخل ہوسکیں لیکن وہ شام جانے سے قبل ایک چکر اسلحہ مارکیٹ کا بھی لگاتا ہے۔ ان دکانوں میں وہ تمام اشیاء پائی جاتی ہیں جن کی ایک جنگجو کو ضرورت ہوتی ہے؛ مختلف قسم کا فوجی لباس، گیسوں سے بچنے کے لئے ماسک، خنجر، شمسی توانائی پیدا کرنے والی مشینیں، دوربینیں اور کیمرے، مختلف قسم کی بیٹریاں اور حتی کہ بلیڈز اور شیمپو وغیرہ۔ دہشت گردوں کی مالی قوتدکانداروں کا کہنا ہے کہ مسلح گروپ ـ بطور مثال ـ ایک دن 200 افراد کے لئے عسکری یونیفارم کا آرڈر دیتے ہیں تاکہ دوسرے دن آکر اپنی تحویل میں لے لیں۔ ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہيں ہے اور ان کی ثروت کی وجہ یہ ہے کہ ان کے حامی ممالک اس سلسلے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلحہ اور عسکری ساز و سامان کے خریدار مختلف لہجوں میں عربی بولتے ہیں جیسے: عراقی، مصری، اردنی، لیبیائی اور سوڈانی وغیرہ؛ چیچن باشندے بھی یہاں آتے ہیں جنہوں نے شام میں اپنے لئے خاص عسکری جماعت تشکیل دی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اس رپورٹ میں مغربی ممالک سے آنے والے دہشت گردوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری نہیں سمجھا ہے اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیا سے آنے والے دہشت گردوں کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق، سرحدی مارکیٹ کے دکانداروں کے لئے یہ بات بھی اہم نہیں ہے کہ ہتھیار اور فوجی ساز وسامان کہا منتقل ہوتا ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ شام کی جنگ سے قبل ان کی مارکیٹ میں تجارتی کارو بار بہت بےرونق تھا اور اس جنگ نے اس کاروبار کو رونق بخشی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/٭۔٭

ترکی میں سعودی دہشت گرد گرفتار

شام میں دہشت گردوں کے لئے اسلحہ اسمگلنگ کا پرامن راستہ "ترکی"