اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ کے مطابق، انھوں نے کہا: اس دوران ہم نے یہ دیکھا کہ ادویات کی کمی کی وجہ سے معصوم بچوں کی جانیں گئیں، درجنوں شہریوں کے گلے کاٹے گئے، قتل کیا گیا اور یہاں تک کہ امدادی قافلوں کی لوٹ مار کے ساتھ حکومتی وسرکاری مشینری، افسران اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بھی حملے ہوئے لیکن صوبائی و وفاقی حکومت اور سیکیورٹی ادارے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ آج اسلام آباد میں اہلِ پاراچنار نے ایک مرتبہ پھر امن کی صدا دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاراچنار کے عوام نے امن کے لئے پکارا ہے اور گفتگو، بحث و مباحثہ، مکالمہ اور جرگے کے راستے کو ہی اپنایا ہے۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ صبر ، حوصلے اور حب الوطنی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کرم امن کنونشن کے تمام منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امن کی جانب اٹھنے والے ہر قدم کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ اب ریاست کا امتحان ہے کہ وہ امن کی دعوت اور پکار پر کیسے ردعمل دیں گے؟
سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے خطاب کے اہم نکات:
- پاراچنار سات مہینوں سے محصور ہے اور راستے ابھی تک نہیں کھل سکے ہیں۔
- درجنوں شہریوں کے گلے کاٹے گئے اور ادویات کی قلت کی وجہ سے بے گناہ بچے جان کی بازی ہار بیٹھے۔
- امدادی قافلوں کو لوٹا گیا، سرکاری اہلکاروں اور سیکورٹی والوں پر دہشت گردانہ حملے کئے گئے لیکن صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں نے کوئی رد عمل نہیں دکھایا۔ی
- آج پاراچنار کے عوام نے اسلام آباد میں امن کا نعرہ لگایا ہے، انھوں نے بات چیت کا راستہ اپنایا ہے۔
واضح رہے کہ پاراچنار خیبرپختونخوا صوبے کے ضلع کرم کا صدر مقام ہے، جہاں گذشتہ دو عشروں سے فرقہ وارانہ اور دہشت گردانہ حملے ہوتے رہے ہیں، حالیہ سات مہینوں سے ایک بار پھر ـ جنگ غزہ کے موقع پر ہی اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت کے عین وقت پر ـ یہ علاقہ عملی طور پر محصور ہے۔
امن کنونشن کے شرکاء نے پاراچنار کے راستے فوری کھولنے، پائیدار امن کی بحالی اور عام شہریوں کی سلامتی کے لئے سیکورٹی فورسز کی تعیناتی، قومی اور مذہبی راہنماؤں کی موجودگی میں امن مذاکرات کا عمل شروع کرنے، پاراچنار کی صورت حال پر صوبائی اور وفاقی حکومت کا موقف شفاف بنانے، میڈیکل ٹیموں کی تعیناتی اور ہنگامی بنیادوں پر غذائی مواد کی فوری ترسیل پر زور دیا۔
تاہم وفاقی حکومت اور پاکستانی افواج کی طرف سے کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ مین اسٹریم پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی پاراچنار کی مظلومیت کو کوریج دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے اور سرکاری ادارے جہاں دوسرے علاقوں میں دہشت گردوں کو خوارج کا نام دیتے ہیں اور کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں، پاراچنار کے سلسلے میں ان ہی خوارج کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔
انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ پاراچنار کی افسوسناک صورت حال پر ریاست کی خاموشی اور صوبائی حکومت کے متنازعہ رویے جاری رہنے کی صورت میں، خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ