بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اقوامِ متحدہ میں پاکستان سمیت کئی ممالک نے اسرائیل کے اس اقدام پر سوال اٹھایا ہے کہ وہ صومالیہ کے علیحدگی پسند خطے صومالی لینڈ کو تسلیم کر رہا ہے اور ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آیا اس کا مقصد غزہ سے فلسطینیوں کی جبری منتقلی یا وہاں فوجی اڈے قائم کرنا تو نہیں۔
پاکستان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو غیر قانونی طور پر تسلیم کرنا انتہائی باعث تشویش ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ اس خطے کا ذکر پہلے فلسطینیوں، بالخصوص غزہ سے تعلق رکھنے والوں، کی جلاوطنی کے لیے ممکنہ منزل کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔
یہ بات پاکستان کے نائب مستقل مندوب برائے اقوامِ متحدہ محمد عثمان اقبال جدون نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہی، جو اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے معاملے پر بلایا گیا تھا۔
اسرائیلی ریاست جمعے کو صومالی لینڈ کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کرنے والی پہلی ریاست بن گئی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد عثمان اقبال جدون نے کہا کہ صومالیہ کی وفاقی جمہوریہ کے خطے صومالی لینڈ کو فلسطینیوں، خصوصاً غزہ کے عوام کی جلاوطنی کے لیے ممکنہ مقام کے طور پر پیش کرنے کے سابقہ اسرائیلی بیانات کے تناظر میں اس خطے کو تسلیم کرنا نہایت تشویشناک ہے۔
انھوں نے کہا کہ مارچ میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل نے سوڈان، صومالیہ اور صومالی لینڈ کے حکام سے رابطہ کیا تھا تاکہ غزہ سے فلسطینیوں کی جبری منتقلی کے لیے ان علاقوں کو ممکنہ مقامات کے طور پر استعمال کرنے پر بات چیت کی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی دہائیوں سے فلسطینی زمین پر اسرائیل کا قبضہ اور بے دخلی مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام اور تنازع کی بنیادی وجہ رہا ہے، اور اب اسرائیل یہی استحکام کو تباہ کرنے والا رویہ افریقہ کے خطے تک منتقل کر رہا ہے، جس کے علاقائی امن اور سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے حوالے سے کسی بھی تجویز یا منصوبے کو قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔
انھوں نے یاد دلایا کہ سلامتی کونسل کی ایک سابق قرارداد، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق کی گئی تھی، اس میں واضح کیا گیا تھا کہ کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے تمام اقدامات جو نقل مکانی یا دوبارہ آبادکاری کی وکالت کرتے ہیں یا اس کا عندیہ دیتے ہیں، نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ منصفانہ اور پائیدار امن کے امکانات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کی حقِ خود ارادیت کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور دیرپا امن و استحکام کا واحد راستہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر ایک آزاد، متصل اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
محمد عثمان اقبال جدون نے اپنے خطاب میں صومالیہ کی خودمختاری، وحدت اور علاقائی سالمیت کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا بھی اعادہ کیا۔
انھوں نے صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے اسرائیلی اقدام کو صومالیہ کی بین الاقوامی سرحدوں پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ صومالی لینڈ کا خطہ صومالیہ کا لازمی، ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ علیحدگی حصہ ہے، اور کسی بھی بیرونی فریق کو اس حقیقت کو بدلنے کا نہ تو قانونی اختیار حاصل ہے اور نہ اخلاقی جواز۔ انھوں نے بتایا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے کئی ممالک اور پاکستان نے اسرائیل کے اس اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف صومالیہ کی کامیابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے سکیورٹی اداروں اور استحکام کی کوششوں کی مسلسل اور قابلِ پیش گوئی حمایت ناگزیر ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس نازک مرحلے پر، جب صومالیہ انتہاپسندی کے خلاف نبرد آزما ہے، کوئی بھی ایسا اقدام جو توجہ ہٹائے، اتحاد کو کمزور کرے یا تقسیم کو ہوا دے، انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔
عثمان اقبال جدون نے سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ صومالیہ کی وحدت اور علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے تمام اقدامات کو مسترد کیا جائے۔
دوسری جانب، عرب لیگ کے 22 ممالک نے بھی اسرائیل کے اس اقدام کو مسترد کر دیا۔
اقوامِ متحدہ میں عرب لیگ کے سفیر ماجد عبدالفتاح عبدالعزیز نے کہا کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کو قبول نہیں کرتے جس کا مقصد فلسطینی عوام کی جبری منتقلی کو آسان بنانا یا شمالی صومالیہ کی بندرگاہوں کو فوجی اڈوں کے قیام کے لیے استعمال کرنا ہو۔
صومالیہ کے مستقل مندوب ابوکر داہر عثمان نے کہا کہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک الجزائر، گیانا، سیرالیون اور صومالیہ نے کسی بھی ایسے اقدام کو یکسر مسترد کیا ہے جس کا مقصد فلسطینی آبادی کو غزہ سے صومالیہ کے شمال مغربی خطے میں منتقل کرنا ہو۔
اس کے برعکس، امریکہ نے اسرائیل کے صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے حق کا دفاع کیا اور اس کا موازنہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک سے کیا۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی نائب سفیر ٹیمی بروس نے کہا کہ اسرائیل کو بھی دیگر خودمختار ریاستوں کی طرح سفارتی تعلقات قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔
انھوں نے کہا کہ رواں برس سلامتی کونسل کے بعض ارکان سمیت کئی ممالک نے ایک غیر موجود فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا، لیکن اس پر کوئی ہنگامی اجلاس نہیں بلایا گیا، اور اس پر دوہرے معیار کا الزام عائد کیا۔
سلووینیا کے سفیر سیموئیل ژبوگار، جن کے ملک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے، نے امریکی مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کسی ریاست کا حصہ نہیں بلکہ ایک غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقہ ہے، جیسا کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے قرار دیا ہے، جبکہ صومالی لینڈ اقوامِ متحدہ کے ایک رکن ملک کا حصہ ہے اور اسے تسلیم کرنا اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے منافی ہے۔
برطانیہ کے سفیر جیمز کاریوکی نے صومالیہ کی خودمختاری، علاقائی سالمیت، سیاسی آزادی اور وحدت کے لیے اپنے ملک کی حمایت کا اعادہ کیا۔
اسرائیل کے نمائندے جوناتھن ملر نے کہا کہ یہ اقدام صومالیہ کے خلاف کوئی معاندانہ قدم نہیں اور اس سے فریقین کے درمیان مستقبل میں مکالمے کے امکانات ختم نہیں ہوتے بلکہ اسے خطے میں استحکام کو مضبوط بنانے کا ایک موقع قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ